قومی غیرت اور اقتدار اعلٰی

قومی غیرت اور اقتدار اعلٰی

طاہر علی خان

یکم اپریل 2001 کو امریکہ کا ایک جاسوس طیارہ بین الاقوامی سمندری حدود پر پرواز کرتے ہوئے چین کے حینان آئی لینڈ کی حدود میں داخل ہوا تو چین نے اسے اپنے لڑاکا طیاروں کے ذریعے گھیرے میں لے کر اترنے پر مجبور کردیا۔ اس جاسوس جہاز کی ٹکر سے چین کا ایک لڑاکا طیارہ سمندر میں گر کر تباہ اور اس کا پائلٹ مرگیا۔ جہاز اور اس پر موجود عملے کی واپسی پر چین اور امریکہ کے درمیان چپقلش پیدا ہوئ جو کئ مہینے جاری رہی۔

امریکہ کہتا تھا ہمارا جہاز بین القوامی ہوابازی حدود میں محو پرواز تھا جس میں ہر ملک کو جہاز اڑانے کی اجازت ہوتی ہے۔ چین کہتا تھا یہ ہمارے حدود میں اڑ رہا تھا، اس نے ہم سے اجازت نہیں لی تھی اور اس کی ٹکر سے ہمارا جہاز تباہ اور پائلٹ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اب امریکہ اس دخل اندازی پر چین سے معافی مانگے اور جہاز کی تباہی اور پائلٹ کے خون بہا کے طور پر ایک ملین ڈالر ادا کرے۔ امریکہ نے بالآخر دس دن بعد معافی مانگ لی تو اسے اپنے 24 اہلکار مل گئے۔ جہاز کو واپس لے جانے کےلیے گئے ہوئے اس کے پائلٹس کو مگر خالی ہاتھ آنا پڑا۔

چین نے کہا اب یہ جہاز ہماری سرزمین سے نہ خود اڑاکر اور نہ ہی اسے سالم حالت میں کسی دوسرے امریکی جہاز میں لے جایا سکتا ہے بلکہ اب اسے پرزے کرکے لے جانا پڑے گا۔ یوں اس جہاز کے پرزے صندوق میں بند کرکے ایک روسی جہاز میں لے جاکر امریکہ کے حوالے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ایک اور کام بھی کیا گیا۔ امریکی اہلکاروں اور جہاز کو لے جانے، رکھنے، اہلکاروں کے کھانے پینے اور جہاز کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے واپس بھیجنے کے سارے اخراجات کی مد میں امریکہ سے 34567.89 ڈالرز بھی وصول کیے گئے۔

کیا آپ سوچ رہے ہیں چین ایک طاقت ور ملک ہے وہ اپنے قومی غیرت کے حوالے سے حساس ہو سکتا ہے اور اپنی مرضی بھی منوا سکتا ہے جبکہ غریب اور کمزور ملک آزادی سے اپنے فیصلے خود کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے؟ چلیے آپ کو اپنے ملک کی تاریخ سے ہی چند مثالیں دیتے ہیں جب ہمارے سابقہ حکمران طاقت ور ممالک کے سامنے ڈٹے رہے اور انہوں نے آزادی کے ساتھ اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے۔

یہ 1962 کی بات ہے۔ جنرل ایوب خان ملک کے سربراہ ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان رابطے اور گرم جوشی بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کو پتہ چلتا ہے تو وہ پاکستان کو اس وقت امریکہ کے دشمن چین سے دور رہنے کا کہتا ہے مگر پاکستان ماننے سے انکار کر دیتا ہے کہ چین سے تعلق اور دوستی اس کے ملکی مفاد کا تقاضاہے اور یہ تعلق کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔ یہی امریکہ بعد میں پاکستاں کی منت کرتا ہے کہ وہ چین سے اس کی مذاکرات اور تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ بنے۔

1969 یاد آرہا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہو رہا ہے۔ ہندوستان کو بھی تب ساٹھ ملین مسلم آبادی کی وجہ سے بطور رکن شرکت کرنے کی دعوت دی جا چکی ہے اور اس کا وفد شرکت کرنے پہنچ چکا ہے۔ یہ سن کر صدر پاکستان جنرل یحیٰی اجلاس میں آنے سے تب تک انکار کردیتے ہیں جب تک ہندوستان کو بطور ممبر اجلاس میں شرکت کی دعوت واپس نہیں لی جاتی۔ اجلاس کا وقت صبح دس بجے مقرر ہے مگر وہ اپنے جائے قیام سے باہر آنے سے منکر ہیں۔ انہیں منانے عرب ملکوں اور ایران کے رہنماء جاتے ہیں مگر ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہندوستانی وفد کو کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کےلیے اپیل کی جاتی ہے کہ آپ مکمل رکن کے بجائے آبزرور کی حیثیت سے شریک ہوں یا اجلاس میں آنے سے اجتناب کریں مگر وہ بھی نہیں مانتے۔ ادھر صدر پاکستان بھی نہیں آرہے۔ کانفرنس ہال میں دوسرے ملکوں کے وفودبیٹھے ہیں پاکستانی صدر کا انتظار کررہے ہیں۔ اجلاس ملتوی ہوتا ہے بالآخر اگلے روز جب صدر پاکستان کی بات مان لی جاتی ہے اور ہندوستانی وفد کو اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ واپس لے لیا جاتا ہے اور اسے اجلاس میں شرکت نہیں کرنے دی جاتی تو صدر پاکستان اجلاس میں پہنچ جاتے ہیں۔

آئیے اب 1974 کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد دوبارہ اس قسم کی صورت حال سے بچنے اور عالم اسلام کے اتحاد کو یقینی کےلیے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس بلاتا ہے تو امریکہ وزیراعظم بھٹو کو ایسا نہ کرنے کا کہتا ہے اور نہ ماننے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کی دھمکی دیتا ہے مگر پاکستان اس کی بات ماننے سے انکار کرلیتا ہے کہ اپنے خارجہ پالیسی کے فیصلے وہ اپنے مفاد کے تحت کرے گا نہ کہ ان کے کہنے پر۔

اور وہ وقت بھی یاد کریں جب پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو امریکہ اور دوسرے ملکوں نے اسے “اسلامی بم” بنانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، پابندیاں لگائیں، ہمارے حکمرانوں کو دھمکیاں دیں مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے نواز شریف تک سب ڈٹے رہے اور ایٹم بنانے پر کام جاری رہا۔ بعد میں بے نظیر بھٹو مرحومہ کے دور میں بیلسٹک میزائل اور ان کے بنانے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کی گئی اس لیے کہ ایسا کرنا ملک کی سلامتی کےلیے ضروری تھا اور یہی ملک کے مفاد میں تھا۔

1998 کی یاد آرہی ہے جب ہندوستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ اس وقت کی نواز شریف حکومت نے اس پر مذہب، سیاست، سماج اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی سے منسلک لوگوں سے مشورے شروع کر دیئے کہ کیا کیا جائے۔ اس دوران خفیہ طور پر جوابی ایٹمی دھماکوں کی تیاری بھی جاری رہی۔ دنیا کی طاقت ور انٹلی جنس ایجنسیوں کو شک تھا کہ پاکستان تیاری کررہا ہے لیکن جگہ کا پتہ نہ تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک کے رہنماؤں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوششیں شروع کردیں، دھمکیوں سے کام نہ چلا تو امریکی صدر نے خود وزیراعظم نواز شریف صاحب کو فون کرکے دھماکے نہ کرنے کے عوض پانچ ارب ڈالرز اور مزید امداد کی پیشکش کی لیکن حکومت نے 28 مئ 1998 کو چھ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو مسلم ملکوں کی پہلی ایٹمی طاقت بنادیا۔

2003 میں پاکستان نے عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کی اور جنگ میں حصہ لینے کےلیے اپنی فوج نہ بھیجی۔۔ جنگ کے بعد امریکہ اور برطانیہ پاکستان پردباؤ ڈالتے رہے کہ وہ عراق میں قیام امن میں مدد دینے کےلیے اپنی فوج بھیجے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ عراق میں صورتحال خطرناک تھی اور وہاں فوج بھیجنا نقصان دہ ہوگا۔ یوں پاکستان نے ایک دفعہ پھر اپنے مفاد میں فیصلہ لیا۔

نومبر 2011 میں امریکی فوج نے پاکستان افغانستان سرحد پر سلالہ کےمقام پر ایک کارروائی میں 28 پاکستانی فوجی شہید کردئیے۔ پاکستان نے اس کے نتیجے میں نیٹو سپلائ لائن منقطع کردی۔ پاکستان کا مطالبہ تھا امریکہ اس پر معافی مانگے اور قصورواروں کو سزا دے۔ امریکہ چاہتا تھا اس کے بغیر سپلائ لائن بحال کی جائے۔ وہ پاکستان پر مہینوں دباؤ ڈالتا رہا مگر جب تک جولائی 2012 میں اس نے معافی نہیں مانگی پاکستان نے نیٹو سپلائی لائن بحال نہ کیا۔ اس سے پہلے جب امریکی سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ہمارا صبر تمام ہورہا ہے تو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے امریکی وفد سے ملاقات منسوخ کردی تھی۔

2011 ہی میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا۔ اس نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا اور پاکستان نے اسے گرفتار کرکے اس پر مقدمہ شروع کیا۔ یہ امریکہ کے بقول ایک سفارتی اہلکار تھا جسےگرفتارکیا جا سکتا تھا نہ اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا تھا۔ امریکہ نے پاکستان پر بے انتہا دباؤ ڈالا کہ ریمنڈ ڈیوس کو فوراً رہاکرے مگر پاکستان ڈٹا رہا۔ پاکستان نے ان کے سفارت کاروں کی تعداد اور سرگرمیاں انتہائ محدود کردیں ۔ باالآخر امریکی حکومت نے ان بندوں کے خاندان والوں کو خون بہا دے کر ریمنڈ ڈیوس کو معافی دلوائ اور یوں عدالت میں راضی نامہ پیش کرکے اس کی جان بخشی کروائ۔

آئیے اب 2015 کی طرف آتے ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور اس کے دیگر عرب اتحادی یمن میں اس کے بقول ایران نواز ہوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کےلیے ایک فوجی اتحاد تیار بنایا جارہاہے جس میں پاکستان کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت ان دو ملکوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی لیکن اس جنگ میں شریک بھی نہیں ہونا چاہتی۔ بالآخر حکومت وہاں فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے کہ پاکستان مزید دوسروں کی ایک غیر ضروری جنگ میں آخر کیوں کودے۔ اس سے یقیناً سعودی عرب اور یو اے ای ناراض ہوئے اور نواز شریف کو اس کا اقامہ کے معاملے پر نقصان بھی ہوا مگر جنگ میں نہ کودنے کا فیصلہ انہوں نے پاکستان کے مفاد میں لے لیا تھا۔

اب ہم 2019 کی بات کرتے ہیں۔ کشمیر میں ہندوستان ظلم و ستم کا بازار گرم کر چکا ہے۔ پاکستان او آئ سی کا اجلاس بلانا چاہتا تھا۔ لیکن سعودی عرب اور یو اے ای نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ الٹا مودی کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ پھر او آئی سی کا اجلاس ہوا جس میں ہندوستان کو بلایا گیا۔ پاکستان نے اس پر احتجاج کیا لیکن “بردران اسلام” نے اس کی بات کو توجہ ہی نہیں دی۔ چنانچہ اس نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا لیکن اسے منانے کسی نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

2019 ہی کے ستمبر میں ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کے سربراہان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مسلم امہ کے مسائل کو کماحقہ کوریج دینے، اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے اور صحیح اسلامی بیانیہ کی ترویج کےلیے یہ تین ممالک ایک مشترکہ چینل بنائیں گے اور ایک مشترکہ کرنسی بھی لانچ کریں گے۔

ترکی، ملائشیا اور ایران نے کشمیر کے مسئلے پر کھل کر ہمارا ساتھ دیا حتیٰ کہ ملائشیا سے ہندوستان نے اربوں ڈالز کا خوردنی تیل درآمد کرنے کا آرڈر کینسل کردیا۔ اب ہمارے وزیراعظم کی منظوری سے اسی ملائشیا میں مسلم ممالک کا اجلاس بلایاگیا جس میں شرکت کا ہمارے وزیراعظم نے وعدہ کیا۔ اچانک وزیراعظم صاحب سعودی عرب چلے گئے اور وہاں شہزادہ سلمان سے ملے تو وہاں سے ہی خبر آگئ کہ وزیر اعظم صاحب ملائشیا نہیں جائیں گے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے اس پر کہا کہ ملائشیا اجلاس پر عرب ممالک کو تحفظات تھے جبکہ پاکستان امت میں انتشار نہیں چاہتا۔ ترک صدر نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو چالیس لاکھ پاکستانی کارکن سعودیہ عرب سے نکالنے اور سٹیٹ بنک میں رکھی اپنی رکھی گئ رقم واپس لینے کی دھمکی دے کر ملائشیا اجلاس میں جانے سے روکا ہے۔ تاہم پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نے اس تاثر اور بیان کی تردید کی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اجلاس سے روکا ہے۔

اگر واقعی پاکستان کو دھمکی دے کر ملائشیا کے اجلاس میں جانے سے روکا گیا ہے تو سوال یہ ہے ہم نے ان کے کہنے پر کیوں فیصلہ تبدیل کیا اور وہ بھی ان کے خلاف جو کشمیر اور FATF وغیرہ کے معاملے پر اِن کے برعکس ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اب کون ہماری بات پر اعتبار کرے گا یا کشمیر کے مسئلے پر ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کےلیے تیار ہوگا؟

اگر کوئ کہے کہ سعودی عرب نے تو نہی روکا لیکن وہاں نہ جانے میں ہی پاکستان کا فائدہ تھا تو پھر وہاں جانے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے فیصلہ کرنے والے دور اندیشی سے عاری ہیں۔ انہوں نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ نئے اتحاد اور پھر اجلاس میں شمولیت کا وعدہ اور فیصلہ اس کے تضمنات پر سوچے بغیر کیا۔ اگر یہ بات ہے تو یہ تو ملک کےمستقبل کےلیے اور بھی خطرناک بات ہے۔

قومی اقتدار اعلیٰ کا تقاضا ہے کہ کوئ بھی ملک اپنے اندرونی اور بیرونی فیصلے اپنی آزاد مرضی سے، بغیر کسی کے دباؤ اور مجبوری کے، اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے۔

کلبھوشن، ویانا کنونشن اور اقوام متحدہ کا چارٹر

کلبھوشن، ویانا کنونشن اور اقوام متحدہ کا چارٹر

طاہرعلی خان

http://daanish.pk/6971/

بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے کلبھوشن یادیو کیس میں عبوری فیصلے پر پاکستان میں لوگ اپنی سمجھ بوجھ اور سیاسی وابستگی کی روشنی میں تبصرے کر رہے ہیں۔ کوئی اسے جندال کے دورے سے جوڑ رہا ہے، کسی کے خیال میں پاکستانی وکلاء ٹیم کی کارکردگی مایوس کن تھی، کوئی کہتا ہے پاکستان کووہاں جانا ہی نہیں چاہیے تھا اور کسی کے مطابق بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے ماننا لازم نہیں اس لئے کلبھوشن کو فوراً پھانسی چڑھالینا چاہیے۔

پاکستانی وکلاء کی عالمی عدالت میں کارکرگی اور وزیراعظم نواز شریف اوران کے دوست بھارتی تاجر سجن جندال کی ملاقات سے اس کو جوڑنے والے نکات پر ایک سے زیادہ رائے ہو سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۹۴ کے مطابق بظاہر اس بات میں وزن دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ عالمی عدالت نہ جاتا تو پھر اس کا فیصلہ ماننے کا پابند نہ ہوتا۔ اب چونکہ دانستگی یا نادانستگی میں پاکستان عالمی عدالت میں چلا گیا ہے اس لیے اس پر مزید بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تاہم آخری نکتہ کہ عالمی عدالت کے فیصلے بائینڈنگ نہیں اس لیے اب کلبھوشن کو پھانسی دے دینی چاہیے، متعلقہ قوانین اور بین الاقوامی ذمہ داریوں سے واضح لاعلمی پر مبنی ہیےاس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۹۴ کےالفاظ یہ ہیں۔ ‘‘اقوام متحدہ کا ہر ممبر وعدہ کرتاہے کہ وہ ہر اس کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرےگا جس میں وہ فریق ہے۔ اگر کیس کا کوئی فریق عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت عائد ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو دوسرا فریق سیکورٹی کونسل سے رجوع کر سکتا ہےجو اگر ضروری سمجھے تو فیصلے پرعمل درآمد کے لئے سفارشات تجویز یا اقدامت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔’’ چارٹر کی اس دفعہ کا انگریزی متن یہ ہے۔

UN Charter Article 94

  1. Each Member of the United Nations undertakes to comply with the decision of the International Court of Justice in any case to which it is a party.
  2. If any party to a case fails to perform the obligations incumbent upon it under a judgment rendered by the Court, the other party may have recourse to the Security Council, which may, if it deems necessary, make recommendations or decide upon measures to be taken to give effect to the judgment.

یہ بات تو واضح ہے کہ اب اس فیصلے سے روگردانی ممکن نہیں کیونکہ پاکستان امریکہ جیسی طاقت نہیں رکھتا جس نے کم ازکم دو مرتبہ عالمی عدالت کے اسی طرح کے فیصلوں کے باوجود ملزموں کو پھانسی چڑھا دیا تھا اور کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا تاہم پاکستان کے پاس راستہ کھلا ہے کہ وہ عالمی عدالت سے کلبھوشن کیس کا حتمی فیصلے اپنے حق میں کروانے کے لیے خوب تیاری کرے۔ اس کے لیے چند نکات پیش خدمت ہیں۔

ہندوستان نے ویانا کنونشن کی دفعہ ۳۶ کی روشنی میں پاکستان پر کلبھوشن تک قونصلر رسائی نہ دینے اوراسکی گرفتاری سے بروقت مطلع نہ کرنے پر مقدمہ کیا اور آفشنل پروٹوکول کے آرٹیکل ۱ کی بنیاد پر مطالبہ کیا تھا کہ عالمی عدالت انصاف ویانا کنوشن کے مفہوم اور اطلاق سے پیدا ہونے والے تنازعات پرچونکہ فیصلے دینے کا لازمی دائرۂ اختیار رکھتا ہےا س لیے وہ کلبھوشن کے مقدمے کو سنے تاہم پاکستان نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین ۲۰۰۸ میں قونصلر رسائی کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کی دفعہ ۶ کے مطابق سیاسی اور سیکورٹی بنیادوں پر گرفتاری، حراست اور سزا کی صورت میں ہر ریاست کو کیس کی میرٹ پر خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ آیا ۲۰۰۸ کا یہ پاک بھارت معاہدہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل۱۰۲ کے شق ا کے مطابق اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹرڈ کیا گیا تھا یا نہیں۔ اگرہاں تو پھر پاکستان کا کیس مضبوط ہے تاہم اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کلبھوشن ایک غیرقانونی مداخلت کار اور جاسوس ہے۔ اگریہ رجسٹرڈ نہیں تو اسی آرٹیکل کے شق ۲ کے مطابق اقوام متحدہ کے کسی عضو کے سامنے ایسے کسی معاہدے سے مدد نہیں لی جا سکتی۔

انڈیا نے اگر یہی لائن لے لی تو پھراگر پاکستان کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں پرعالمی عدالت انصاف میں کیس کرلیتا ہے تو انڈیا بھی شملہ معاہدے کی آڑنہیں لے سکے گا کہ یقیناً یہ بھی اقوام متحدہ کےساتھ رجسٹرڈ نہیں کیا گیا ہوگا۔

تاہم ویانا کنونشن کے آپشنل پروٹوکول کے آرٹیکل ۱سے پہلے چند الفاظ آئے ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان اپنا کیس بنا سکتاہے۔۔‘‘جب تک ایک معقول وقت کے اندر فریقین تصفیہ کی کسی اور شکل پرمتفق نہ ہوں، وہ کنوشن کی تفہیم یا اطلاق سے پیدا ہونےکسی بھی تنازع پر بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی خواہش کا اظہارکرتے ہیں’’۔ یہ معقول وقت کیاہے اور تصفیہ کی اور شکلیں کیا ہیں؟ اور یہ کہ اس کے بغیر کیا کوئی فریق براہ راست عالمی عدالت میں جا سکتا ہے؟

اس کنونشن کے آرٹیکل ۲ کے مطابق‘‘فریقین چاہیں، تواس کے بعد کہ ایک فریق نے دوسرے کو اطلاع دے دی ہو کہ تنازع موجود ہے، دو مہینے کے اندر اندر عالمی عدالت نہیں بلکہ کسی ثالثی ٹریبیونل سے رجوع کرنے پر متفق ہو جائیں۔ اس مدت کے اختتام پر کوئی بھی فریق ایک درخواست سے اس تنازع کو عالمی عدالت میں لا سکتا ہے’’۔

اس کنونشن کے آرٹیکل ۳ کے ذیلی شق ۱کے مطابق اسی دو مہینے کی مدت میں فریقین چاہیں تو عالمی عدالت سے رجوع کرنے سے پیشتر اصلاح و تصفیہ کے کسی طریق کار پر رضامند ہوں۔ شق دو کے مطابق یہ مفاہمتی کمیشن اپنی تقرری کے پانچ ماہ کے اندر اندر اپنی رپورٹ دے گا۔ اگر اس کمیشن کی سفارشات کو کوئی فریق دو ماہ کے اندر اندر قبول نہ کرے تو دوسرا فریق ایک درخواست کے ذریعے عالمی عدالت کے سامنے یہ تنازعہ لاسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عالمی عدالت میں جانے سے قبل یہ شرائط ہندوستان نے پوری کی تھیں۔ کیا اس نے پاکستان کے ساتھ کسی ٹریبیونل یا مفاہمتی کمیشن کے لئے بات کرنے کی خواہش اور کوشش کی تھی؟ اگر نہیں تو وہ اس کنونشن کے تحت براہ راست رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا اور پاکستان کو پرزور انداز میں یہ دلیل پیش کرنی چاہیے۔

پاکستان کہتا ہے کلبھوشن ایک جاسوس ہے جو دہشت گردی کرانے غیرقانونی طریقے سے بھیس بدل کر پاکستان میں داخل ہوا تھا اور اسے ویانا کنونشن کے تحت حقوق نہیں دیے جا سکتے جبکہ انڈیا اسے ایک بےگناہ ہندوستانی گردانتا ہے جس کو قونصلر رسائی اور قانونی امداد کے حقوق حاصل ہیں۔ اب ایک طرف ویانا کنونشن ہے اور دوسری طرف اقوام متحدہ کا چارٹر جو دوسرے ممالک کے اقتداراعلیٰ اور سالمیت کے احترام اور ان کے اندرونی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک طرف ہندوستان کی ویانا کنونشن کے تحت ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف اقوام متحدہ کے تحت۔ ان میں کس کو فوقیت دی جائیگی؟ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۱۰۳ کا اس سلسلے میں فیصلہ یہ ہے۔ ‘‘اقوام متحدہ کے ارکان کی اس موجودہ چارٹر یا کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت ذمہ داریوں پر کوئی اختلاف واقع ہو جائے تو اس چارٹر کی تحت ان کی ذمہ داریوں کو فوقیت حاصل رہے گی۔’’

کیا اقوام متحدہ کا چارٹر عالمی ادارے کے ممبران کو ایک دوسرے کے اندر مداخلت یا جاسوسی کرنے یا ایسا کرنے والوں کی مدد یا پشت پناہی کی اجازت دیتا ہے؟

Writer’s intro

طاہرعلی خان فری لانس صحافی ہیں، رواداری ، احترام انسانیت اور امن کے پرچارک ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے ۔    کے نام سے بلاگ بھی رکھتے ہیں ۔ www.tahirkatlang.wordpress.com لکھتے ہیں. وہ