تو کیا ہوجائے گا؟

تو کیا ہو جائے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب اسمبلی تحلیل ہوچکی اور بادی النظر میں خیبر پختونخوا اسمبلی بھی ہوجائے گی۔
اگر پورے ملک میں نہیں تو ان دو اسمبلیوں کےلیے انتخابات ہوجائیں گے۔
ادھر خبر آگئ ہے کہ پی ٹی آئ وزیر اعظم کے خلاف تحریک اعتماد لانے پر غور کررہی ہے اور اسے نے ایم کیو ایم سے رابطہ بھی کیا ہے جو حکومتی اتحاد سے ناراض ہے۔
اب یہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ ان کے استعفے قبول نہیں کیے گئے لیکن کیا یہ اعتماد کی تحریک جمع کرسکتے ہیں یا یہ صدر کے ذریعے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت دلوائیں گے؟ کیا یہ اب اتنے مہینے بائیکاٹ کے بعد واپس اسمبلی میں آئیں گے؟

پنجاب میں انتخابات پر زور دینے کا فائدہ پی ٹی آئ کے خیال میں یہ ہوگا کہ اس کی نشستیں بڑھ جائیں گی اور وہ مثلاً مسلم لیگ قاف کی حمایت سے لا پروا ہوجائے گی۔ تو کیا پرویز الہی اپنی بارگیننگ پوزیشن کا کمزور کرنے دے گا؟
موجودہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئ کے پاس مطلق اکثریت ہے۔ اگر اسے دوبارہ یہی یا اس سے زیادہ نشستیں مل جائیں تو دوبارہ صوبائ حکومت بنالے گی۔ پھر موجودہ حکومت اور اسمبلی وقت سے پہلے ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
(طاہرعلی خان)
#tahirkatlang #election2023
#PTIofficial
#PMLN
#KhyberPakhtunkhwa

بدگمانی کا خاتمہ

روزنامہ آج۔ چراغِ راہ 2023-01-15
بدگمانی کا خاتمہ
طاہر علی خان
عوام کے ساتھ جو حکومتی محکمے بلاواسطہ رابطہ رکھتے ہیں ان میں پولیس بدترین محکمہ سمجھا جاتا ہے مگر یہ تاثر درست نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے پولیس بارے خراب عوامی تاثر جھوٹ، مبالغہ، بدگمانی اور نفرت کی پیداوار ہے ورنہ یہ اتنا برا محکمہ قطعاً نہیں ہے جتنا یہ بدنام کیا گیا ہے۔
کل اپنے بڑے بیٹے محمد سیف اللہ خان سے موبائل چوری ہوا اور ممکنہ غلط استعمال کے نتائج سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے ہمیں پولیس کے پاس رپورٹ درج کروانے جانا پڑا۔

جس علاقے میں موبائل چوری ہوا اس کے بارے میں کسی نے بتایا کہ یہ پشاور چارسدہ روڈ پر واقع تھانہ فقیر آباد کے حدود میں ہے اس لیے ہم وہاں پہنچ گئے۔

ہم نے دانستہ اپنا تعارف کیے بغیر تھانہ کے بیرونی دروازے پر موجود سپاہی سے کہا کہ افسرِ مہتممِ تھانہ(ایس ایچ او) سے ملنا ہے۔

سپاہی نے نرمی اور ادب کے ساتھ شناختی کارڈ مانگا تاکہ مہمان رجسٹر میں درج کرسکے۔ ہم نے سروس کارڈ دیا۔ ملاحظہ کرنے کے بعد اس نے درج کیا اور مودبانہ انداز میں مطلوبہ دفتر کی طرف رہنمائ کی۔

پتا چلا کہ افسر مہتمم صاحب تھانہ کے اندر واقع اے ایس پی صاحب کے دفتر میں ان کے ساتھ ملاقات کررہے ہیں۔

ہم نے اے ایس پی صاحب کے دفتر کے دروازے پر موجود سپاہی کو اپنا تعارف کرایا کہ صاحب سے ملنا ہے۔ اس نے کہا اچھا سر اور اشارہ کرکے بتا دیا کہ دیکھیں سر میٹنگ جاری ہے، تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔

پھر اس نے ہمیں عزت کے ساتھ قریبی دفتر میں بٹھا دیا اور کہا جیسے ہی میٹنگ ختم ہو میں آپ کی ملاقات کرادیتا ہوں۔

انتظار والے کمرے میں جو بندہ موجود تھا اسے اپنا مدعا بیان کیا تو وہ بولا کہ جب تک سر فارغ نہیں ہوجاتے تب تک آپ جاکے تھانہ محرر سے مل لیں وہ رپورٹ درج کروا لیں گے۔ بات مناسب تھی چنانچہ ہم اٹھ کر محرر صاحب کے دفتر آگئے۔

وہاں بھی انہوں نے احترام کے ساتھ بات سنی اور آگاہ کیا کہ جہاں وقوعہ ہوا ہے یہ تھانہ ہشتنگری کے حدود میں آتا ہے آپ وہاں چلے جائیں۔ انہوں نے چائے پلانی چاہی مگر ہم جلدی میں تھے۔

واپس بیرونی دروازے پر آئے تو اس سپاہی نے بڑے پیار اور ادب کے ساتھ رخصت کیا۔

رات کے ساڑھے دس بجے ہم تھانہ ہشت نگری پہنچے تو افسر مہتمم تھانہ کے دفتر کا پوچھا۔ پتا چلا وہ محرر صاحب کے دفتر میں ہیں۔ باہر سے نظر آیا کہ چند بندے اس وقت کھانا کھا رہے (پولیس کی مصروفیت کا اس سے اندازہ لگالیں) جب کہ دو بندے کسی مسئلے پر گفتگو کررہے ہیں۔
ہم باہر کھڑے ہوگئے۔ دو تین منٹ بعد برتن باہر آئے ہم دفتر کے اندر چلے ہوگئے۔
معلوم ہوا کہ گفتگو کرنے والے دو بندوں میں ایک افسر مہتمم ہیں۔ نہایت وجیہ شخصیت اور اندازو اطوار کے مالک ایس ایچ او مڑے تو ہمیں دیکھا، سلام کیا اور ادب کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔
ان سے اپنا تعارف کیا اور مدعا بیان کیا۔ انہوں نے توجہ سے بات سنی، پیار بھرے لہجے میں چند ایک سوالات پوچھے اور پھر مدد محرر صاحب کو کہا کہ ان کا کام جلدی کردیں اور چائے بھی پلادیں۔

مدد محرر نے ہماری رپورٹ لکھ دی اور وعدہ کیا کہ ان شاءاللہ موبائل برآمد کروانے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم درجنوں موبائل برآمد کرواکر مالکان کو واپس کر چکے ہیں۔

انہوں نے پشاور کا زبردست قہوہ بھی پلایا اور عزت و تپاک کے ساتھ رخصت کر دیا۔

واضح رہے بارہ سال قبل مردان پولیس نے میرا ایک گم شدہ موبائلط فون چار دن بعد برآمد کرکے مجھے واپس کردیا تھا۔ دیکھتے ہیں اس بار پشاور پولیس کیا کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پولیس بدنام کیوں ہے۔ ایک تو پولیس والوں کا کام زیادہ اور سخت ہوتا ہے۔ کام کے بوجھ اور آرام نہ ہونے سے وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر لوگ بھی الا ماشاءاللہ بدتمیزی اور زیادتی کرتے ہیں اور ان کی نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ورنہ پولیس میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ ادارہ بد اتنا نہیں جتنا بدنام کیا گیا ہے۔

2022

Is your life today what you pictured a year ago?

The year 2022 has brought about many changes in life

Against all odds, I got promoted and posted to Peshawar, the city of flowers.

My life pattern has underwent a significant shift from the past.

I now enjoy being in bed till noon as my duty starts after 130pm.

Colleagues are also almost all cooperative and respectful.

Children are also at ease and getting proper education at their doorsteps. Thank you Allah.

Tahir Ali Khan

امریکہ میں افغان جائزہ کمیشن کا قیام

روزنامہ آج۔ 2022-01-20
امریکہ میں افغان جائزہ کمیشن کا قیام
طاہر علی خان

امریکی کانگریس نے افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور طالبان کی فتح کے اسباب کا تجزیہ کرنے اور مستقبل میں ایسی ناکامیوں سے بچنے کی حکمت عملی مرتب کرنے کےلیے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کردیا ہے جس میں دونوں بڑی امریکی جماعتوں کے سولہ سولہ نمائندے ہوں گے اور یہ ایک سال بعد ابتدائی رپورٹ جبکہ تین سال میں حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔

یہ کمیشن 2001 میں افغانستان جنگ شروع کرنے کی وجوہات اور اس جنگ سے پہلے افغانستان سے متعلق امریکی پالیسیوں کا بھی جائزہ لے گا۔

اس کمیشن کی بنیاد بننے والے نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ میں کہا گیا ہے، “کمیشن افغانستان میں جنگ کا جامع جائزہ لے گا اور مستقبل کی کارروائیو ں کے لیے حکمت عملی اور اسٹریٹیجک طریقہ کار کی سفارشات پیش کرے گا، جن میں فوجیوں میں اضافے و کمی اور مقررہ ڈیڈ لائن کی وجہ سے پڑنے والے اثرات بھی شامل ہیں۔”

اس قانون میں امریکی انتظامیہ کو کہا گیا ہے کہ وہ چین کے مقابلے میں تائیوان کی غیر متناسب دفاعی صلاحیتوں کوبہتر بنائے اور امریکی دفاعی اخراجات بھی گزشتہ سال سے 28 ارب ڈالر بڑھا دیئے گئے ہیں۔

اس کمیشن کے نکات کار میں مستقبل کی فوجی کارروائیوں کےلیے حکمت عملی اور تزویراتی طریقہ کار کی سفارشات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامی سے کوئ سبق نہیں سیکھا اور یہ آئندہ بھی دوسرے ممالک میں مداخلت کرتا رہے گا۔

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اسپیشل انسپکٹر جنرل کے دفتر SIGAR سیگار، جسے کانگریس نے 2008 میں افغان جنگ میں پیسوں کے ضیاع اور دھوکہ دہی کی تحقیقات کے لیے بنایا تھا، نے 2014 میں اپنے ڈائریکٹر جنرل جان سوپکو کی ہدایت پر “lesson learned سبق جو سیکھے گئے” کے عنوان سے افغان حکام، امریکی اور اتحادی اہلکاروں، سفارت کاروں اور امدادی کارکنوں سمیت تقریباً چھ سو افراد کے انٹرویوز کے بعد ایک رپورٹ تیار کی تھی جس کا مقصد افغانستان میں پالیسی ناکامیوں کا پتا لگانا تھا تاکہ اگلی بار جب امریکہ کسی ملک پر حملہ کرے یا منتشر ملک کے تعمیرنوکی کوشش کرے تو وہ ایسی غلطیاں نہ دہرائے۔

سیگار 2016 سے اب تک افغانستان کے مسائل اور ان کے حل پر سات رپورٹیں تیار کر چکا ہے۔

مشہور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کچھ عرصہ قبل سیگار کے دو ہزار صفحات پر مشتمل ان افغانستان پیپرز کے نقول تین سال کی قانونی جدوجہد کے بعد حاصل اور شائع کیے تھے جن میں افغانستان میں امریکی ناکامی کی وجوہات بیان کی گئ ہیں۔

ان تحقیقاتی رپورٹوں کی موجودگی میں مزید تحقیقات کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے، وہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔

امریکہ چار صدور کی نگرانی میں افغانستان میں بیس برس گزارنے، تقریباً آٹھ لاکھ فوجی یہاں لگانے، ٹریلین ڈالرز خرچ کرنے، چوبیس سو امریکی فوجیوں کو مروانے اور بیس ہزار کو زخمی کروانے، چھیاسٹھ ہزار افغان سپاہیوں کو کھونے، پچاس ہزار افغانوں کو مارنے، اپنے اکیاون اتحادیوں کو جنگ میں شریک کرنے اور ان کے بارہ سو سپاہی ہلاک کروانے، ساڑھے چار سو انسانی حقوق کارکنوں اور پچھتر صحافیوں کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھانے، پچیس لاکھ افغانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے اور تقریباً پینتیس لاکھ کو اندرون ملک بے گھر کرنے کے بعد بھی طالبان کو شکست نہیں دے سکا جنہوں نے محض دس دن میں افغانستان بھر پر قبضہ کرلیا۔

ماہرین کے مطابق افغانستان میں امریکی ناکامی کی بڑی وجوہات میں امریکی رہنماؤں کی حد سے زیادہ خود اعتمادی، متلون مزاجی، غلط ترجیحات، حقائق سے ناواقفیت یا چشم پوشی شامل ہیں۔

اگر امریکہ پہلے افغانستان کی خودمختاری اور عوام کی حق حکومت سازی کا احترام کرتا اور حملے سے اجتناب کرتا، یا پھر افغانستان پر حملے کے بعد اسے غلطی مانتا، طالبان اور دیگر جنگجو گروہوں کے ساتھ آزاد ماحول میں مذاکرات کرتا، بین الافغان تصفیہ کےلیے کوشش کرتا، افغانستان کے پڑوسیوں اور مقامی و بین الاقوامی طاقتوں کو افغان مسئلے کے حل کےلیے ساتھ لیتا، افغانستان کی بحالی و تعمیر نو کےلیے زیادہ وسائل مختص کرتا اور وہاں بدعنوانی اور طاقت کے استعمال پر جواب دہی کا بندوبست کرتا تو افغانستان تباہی سے اور امریکہ شکست وبدنامی سے بچ پاتا مگر امریکی رہنماؤں نے امریکی عوام کو گمراہ کیا اور ناکامی کے اسباب جان بوجھ کر نظرانداز کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ صومالیہ، ویتنام اور عراق میں تو ناکام ہوا ہی تھا اب افغانستان میں بھی ناکام ہوگیا۔

امریکہ کے بقول وہ افغانستان طالبان حکومت اور دہشت گردی ختم کرنے، جمہوریت قائم کرنے، منشیات کی پیداوار ختم کرنے اور عورتوں کو آزادی دینے کےلیے آیا تھا لیکن افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے اور وہ اپنے تزویراتی اہمیت کے ساتھ روس اور چین کے ہاتھوں میں جاچکا ہے۔ کابل کے تیز زوال نے 1975 میں ویت نام میں سیگون کے ذلت آمیز امریکی زوال کی یاد تازہ کردی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ شکست قبول کرنے اور اپنی غلطیاں ماننے کےلیے آمادہ نہیں تو ایسے میں وہ اس ناکامی سے کیا سبق حاصل کرے گا۔

جارح کی مزاحمت اور اپنے وقار، مذہب اور وطن کا دفاع افغانیوں کی سرشت میں شامل ہے مگر امریکہ نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت کی تاریخ نظر انداز کی اور ناحق چرھائ کردی۔ ان کا خیال تھا طالبان کو شکست دینا اور ایک متبادل مرکزی حکومت قائم کرنا ممکن ہے مگر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

افغانستان پر حملہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بات چیت سے القاعدہ کا مسئلہ حل کیا جانا ممکن تھا مگر طاقت کے زعم میں افغانستان پر چرھائ کردی گئی۔ طالبان روپوش ہوگئے۔

ان کی حکومت کے خاتمے دو سال بعد امریکی سنٹرل کمانڈ نے انہیں” ختم شدہ طاقت” قرار دیا۔ رمز فیلڈ نے 2003 کے اوائل میں اعلان کیا کہ مشن پورا ہوگیا ہے اور پھر بش اور اس کی ٹیم نے عراق پر حملہ کرکے ایک فاش غلطی کردی۔

اس دوران طالبان سے بات چیت کا راستہ بند رہا اور فروری 2006 میں ہزاروں طالبان نے پورے اضلاع پر قبضہ کرنا اور صوبائی دارالحکومتوں کا گھیراؤ کرنا شروع کردیا۔ اگلے تین سالوں کے دوران طالبان نے ملک کے بیشتر جنوبی اور مشرقی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ اس دوران امریکی فوجیوں کی تعداد 100،000ہو گئ مگر فوج بڑھی تو جانی و مالی نقصان بھی زیادہ ہوا۔ اس دوران امریکی اخراجات 110 بلین ڈالر سالانہ تھے۔ اپنی یاداشتوں میں بش نے لکھا ہے”افغان حکومت کے غیر معمولی خرچ سے روکنے کی کوشش میں ہم نے افغان فوج کی تعداد بہت کم رکھی تھی۔”

https://www.dailyaaj.com.pk/column/54980

دو ہزار تیرہ تک امریکہ نے 350،000 افغان فوجیوں کی تربیت کی مگر اکثر افغان سکیورٹی فورسز اپنی عددی و اسلحہ برتری اور رسد کے باوجود مقابلہ کرنے کے بجائے پیچھے ہٹ گئیں کیوں کہ طالبان شہید یا غازی بننے کے لئے لڑ رہے تھے جبکہ فوج اور پولیس پیسوں کی خاطر۔

پھر افغان حکومت اور اس کے جنگجو اتحادی اکثر بدعنوان تھے۔ انہوں نے افغانیوں کے ساتھ برا سلوک کیا، زمینیں ہتھیائیں، سرکاری ملازمتوں کی بندربانٹ کی اور اکثر امریکی اسپیشل آپریشن فورسز کو اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا اور یوں مزاحمت مضبوط ہوتی گئی۔

امریکہ نے جنگجو سرداروں اور اشرافیہ کا ایک ایسا استحصالی طبقہ افغان عوام پر مسلط کردیا جس نے اربوں ڈالرز کی رقم ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے بجائے خوردبرد کرلی۔
باقی اگلے کالم میں

https://www.dailyaaj.com.pk/column/54980

Smiling Baby Zikra Mudassir

امریکہ میں افغان پناہ گزین

https://www.dailyaaj.com.pk/

روزنامہ آج۔ 2021-11-12
امریکہ میں افغان پناہ گزین
طاہر علی خان

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد غیر ملکی افواج اور سفارت کاروں کے ساتھ ہزاروں افغان شہری بھی امریکہ چلے گئےتھے۔ اگرچہ طالبان نہیں چاہتے تھے کوئ افغانی ملک چھوڑے اور انہوں نے سب کےلیے عام معافی کا اعلان بھی کیا اور جانے والوں کو اپنے ملک واپس آنے کی دعوت بھی دی مگر یہ لوگ بوجوہ نہیں آنا چاہتے اور اب امریکہ میں بھی ان پناہ گزینوں کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے اہلکاروں کے مطابق ان کے انخلاء آپریشن میں امریکیوں، غیرملکی اتحادیوں اور افغانیوں سمیت تقریباً 125,000 افراد کو نکالا گیا اور اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کا اندازہ ہے کہ پانچ لاکھ افغان 2021 کے اختتام تک افغانستان چھوڑنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

اب تک ستر ہزار سے زائد افغان امریکہ منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے اور امدادی گروہ اور ادارے انخلاء میں اتنی بڑی تعداد کی توقع کررہے تھے نہ اس کے لیے تیار تھے۔

یہ لوگ افغانستان سے امریکہ میں ایک شاندار زندگی اور سہانے مستقبل کی امید لے کر امریکہ گئے تھے۔ انخلاء کے دوران بھی انہیں بڑی تکالیف اٹھانا پڑیں لیکن وہاں بھی اکثر کو سکون اور عزت کی زندگی تاحال نصیب نہیں ہوسکی ہے۔

ان ستر ہزار افغانیوں میں سے چھپن ہزار افغانی، جن میں نصف بچے ہیں، تاحال عارضی طور پر امریکہ کے 8 فوجی اڈوں پر بیرکوں اور خیموں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ سب مستقل گھروں میں آباد ہونے کے منتظر ہیں تاہم سست امیگریشن و تصدیقی عمل، گھروں کی قلت، بے روزگاری اور باہر گذر اوقات کے لیے نقد رقم کی عدم موجودگی ان افغان پناہ گزینوں کے بڑے مسائل ہیں۔ رہائشی سہولیات کی کمی یا بہت زیادہ کرائے ان کی آباد کاری میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور اب تک صرف 6 ہزار مہاجرین کے لیےگھروں کا انتظام کیا جا سکا ہے۔آبادکاری کے عمل کو تیز کرنے کی خاطر امریکی حکومت نے امریکیوں کو افغان مہاجرین کی نجی طور پر سرپرستی کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔

اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے ملک اور کلچر میں سکونت اختیار کرنا ویسے بھی خاصا تکلیف دہ عمل ہے لیکن ان افغان پناہ گزینوں کی صورتحال عام مہاجرین سے کہیں زیادہ خراب ہے کیوں کہ ان کی اکثریت مہاجرین کی قانونی حیثیت نہیں رکھتی جس کےتحت انہیں مہاجرین کے طور پر مراعات مل سکتی تھیں۔ پھر ان کا مستقبل بھی غیر واضح اور غیر یقنی ہے۔ اس وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سب، خصوصا ان میں بچے اور خواتین، بے خوابی اور شدید ذہنی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

چند افغان پناہ گزینوں کو بیرکوں ہاسٹلوں میں جگہ مل گئی تھی لیکن باقی خیموں میں رہ رہے ہیں جہاں ہر خاندان کے درمیان صرف کپڑے کا ایک پردہ ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی ڈیجیٹل نگرانی بھی شروع کر دی گئ ہے۔ جن افغان باشندوں کو مشتبہ قرار دے دیا گیا ہے، ان سب کو بچوں عورتوں سمیت چپس پر مشتمل ریڈیو کالرز پہنائے گئے ہیں تاکہ ان کی ڈیجیٹل نگرانی کی جاسکے۔ ان کو ملٹری بیس سے باہرجانے کی اجازت نہیں اور ایسا کرنے والے کو واپس افغانستان بھیجنے کی دھمکی دی گئ ہے۔ سینکڑوں افغان پناہ گزین، خبروں کے مطابق، امریکیوں کے رویے، سخت نگرانی اور اپنے تاریک مستقبل کے حوالہ سے بے یقینی اور پریشانی کی وجہ سے ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔

اس وقت امریکہ میں ویزہ درخواستوں کے لاکھوں کیسز لاینحل ہیں اور امیگریشن عمل میں کئ محکمے اور ایجنسیاں شامل ہونے کی وجہ سے اس کی رفتار سست ہوتی ہے۔ گویا افغان پناہ گزینوں کو اپنی قانونی حیثیت کے تعین کےلیے ابھی لمبا انتظار کرنا ہو گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ امریکی امیگریشن ایجنسیاں ابھی تک وہ کاغذی کارروائی مکمل نہیں کرسکیں جو ان پناہ گزینوں کی رہائش اور روزگار میں مدد سمیت دیگر فوائد کی فراہمی اور حفاظتی نقطہ نظر سے ان کی تصدیق کےلیے ضروری ہے۔ پھر آبادکاری کےلیے درکار وسائل اور لاگت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کئ افغان “مہاجرین” کو آنے سے پہلے مشکوک قرار گیا تھا مگر کچھ اس سے پہلے ہی امریکہ پہنچ گئے تھے۔ کہا جارہا ہے غلط اور نامکمل جانچ پڑتال امریکہ کے لیے بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ صدر بائیڈن پر تنقید کی جارہی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں غیر تصدیق شدہ افغانوں کو امریکہ لاکر انہوں نے اندرونی تباہی کے بیج بودئے ہیں۔ صدر بائیڈن کے اس وعدے کے باوجود کہ ہم امریکی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہر افغان کی سخت جانچ پڑتال کریں گے، یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ انخلاء کے دوران افراتفری میں آنے والے ہر بندے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور خدشہ ہے کہ کچھ انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر بھی ان میں چھپے ہوئے ہیں۔ کچھ ماہرین افغان مہاجرین کی امریکہ میں نقل مکانی سے ‘شہریت کی جنگ’ شروع ہونے کے خدشات بھی ظاہر کررہے ہیں۔

سینیٹر ٹام کاٹن نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ جو بائیڈن کے افغان درآمدی بحران کے باعث صرف جرائم اور انتہا پسندی ہی کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے بلکہ ملک بھر میں فوجی اڈوں پر مقیم کئی افغانوں پر پہلے ہی نابالغوں اور امریکی فوجیوں کے خلاف جرائم کے لیے فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔ ایسی متعدد رپورٹیں بھی موصول ہوئی ہیں کہ کچھ بالغ مرد انخلا کے وقت اپنی “بہو” بھی ساتھ لے آئے ہیں اور ان میں وہ نوجوان خواتین بھی شامل ہیں جن کا ان بڑی عمر کے مردوں سے انخلاء سے پہلے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وبائی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ مثلا اکتوبر میں شمالی ورجینیا کے ڈلس ہوائی اڈے پر پانچ افغانوں میں خسرہ کی تشخیص ہوئی چنانچہ خسرہ کی وبا پھیلنے کی وجہ سے جرمنی کے رامسٹین ایئر بیس سے امریکہ آنے والی افغانیوں کی پروازیں روک دی گئیں۔ ان کے بقول جو باائیڈن انتظامیہ نے ہزاروں غیر تصدیق شدہ افغانوں کو امریکیوں اوراتحادیوں سے پہلے نکال کر سخاوت نہیں بلکہ بڑی لاپروائ دکھائ ہے جس کے اثرات افغانستان میں شکست کی بے عزتی کے بعد طویل عرصے تک امریکیوں کا پیچھا کریں گے۔

پناہ گزینوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے بیس سالہ جنگ کے دوران امریکہ کی مدد کی تھی۔ امریکہ میں اس پر اتفاق ہے کہ ہزاروں افغانوں نے بطور مترجم، ہنرمند اور ملازم امریکی فوجیوں کے ساتھ وفاداری نبھائ اور ان کی مدد کرنے کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کرنا چاہیے تاکہ وہ محفوظ رہیں تاہم نقادوں کے مطابق امریکی انتظامیہ افغانستان میں حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے اسے پھر ایمرجنسی میں انخلا کرنا پڑا اور افغانستان میں موجود امریکی شہریوں, سفارت کاروں، سپیشل امیگرنٹ ویزہ یا گرین کارڈ کے حامل افغان اتحادیوں کو امریکہ لاتے وقت غیر تصدیق شدہ افغان بھی امریکہ لائے گئے جن کے پاس کوئ دستاویزات نہیں ہیں۔

چونکہ ان “مہاجرین” کو سرکاری حیثیت دینے کا وقت نہیں تھا اس لئے انہیں پیرول پر امریکہ آنے دیا گیا۔ یہ ایک عارضی حیثیت ہے جس کی بنیاد پرانہیں کچھ عرصہ رہنے کی اجازت دی گئ ہے۔ عام طور پر پیرول کوئ مراعات ملنے کی ضمانت نہیں تاہم ایک خبر کے مطابق پچھلے دنوں ان پیرول پناہ گزینوں کو غیر معینہ مدت تک کےلیے رہائش، خوراک اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس پر بھی تنقید کی گئ ہے کیوں کہ سپیشل امیگرنٹ ویزہ والوں کو، جو امریکی فوج کے مددگار تھے، یہ مراعات آٹھ مہینے تک ملتی ہیں۔ سینیٹر ٹام کاٹن نے پیرول پناہ گزینوں کی مراعات کو 18 ماہ تک محدود کرنے کے لیے ایک ترمیم پیش کی تاہم سینیٹ کے ڈیموکریٹ ارکان نے اسے مسترد کر دیا۔

ان پناہ گزینوں میں کچھ ایسے خوش قسمت بھی ہیں جن کا خاندان یا دوست پہلے سے یہاں موجود تھے۔ یوں انہیں آبادکاری میں مدد مل سکتی ہے لیکن اکثر اس سہولت سے محروم ہیں۔ کئ ایک آزاد روانگی کی سہولت کے تحت اپنی مرضی سے اڈوں کو چھوڑکر باہر چلے گئے ہیں۔ اب انہیں فوائد کے لیے درخواست دینی ہوگی۔ امریکی انتظامیہ، شہریوں اور امدادی اداروں کو امیگریشن کے امور و دیگر مراحل پر ان کی رہنمائ اور صحت، تعلیم، ملازمت اورآبادکاری میں مدد کرنی ہوگی۔ اب تک امریکی عوام نے افغانستان سے چالیس ہزار پروازوں کا خرچہ اٹھانے کےلیے چندہ دیا ہے اور منتظمین اور بائیڈن انتظامیہ اسے دوگنا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی حکومت کو ان پناہ گزینوں کی آبادکاری کو تیز اور سہل بنانے کےلیے ایمرجنسی ریفیوجی اینڈ مائگریشن اسسٹنس کے اکاؤنٹ سے کافی رقم دینا ہوگی اور ان کی مستقل بحالی کےلئے کسی طویل المیعاد ٹھوس پالیسی بھی بنانا ہوگی۔

افغان پناہ گزین صرف امریکہ میں ہی نہیں ہیں بلکہ کینیڈا نے بیس ہزار تک، برطانیہ نے پہلے سال میں پانچ ہزار اور پھر بیس ہزار تک، آسٹریلیا نے سالانہ تین ہزار اور جرمنی نے بھی ہزاروں افغانی مہاجرین کولینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئ ملکوں نے اس سلسلے میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کو ان ساری کوششوں کو مربوط کرنے کےلیے آگے آنا ہوگا۔

مہاجرین کنونشن 1951 کے تحت مہاجر وہ فرد ہے جو نسل، مذہب، قومیت، یا کسی سماجی گروپ کی رکنیت یا کسی سیاسی رائے کی بنیاد پر ظلم و زیادتی کے خوف کی وجہ سے اپنے اصلی وطن واپس آنے کے قابل یا رضامند نہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی قانون کے تحت ہر ایک فرد کو اپنا ملک چھوڑنے کا حق ہے۔

یہ سب افغان سہانے مستقبل کی آس میں امریکہ چلے گئے کیوں کہ افغانستان میں انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا یا وہ خوفزدہ تھے۔ اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہاں بیس سال گزارے اور کھربوں ڈالر سے زیادہ خرچ کیے مگر اس کے باوجود بھی افغانستان بدامنی، غربت اور پسماندگی کا نمونہ ہے جہاں کسی کو اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل روشن نظر نہیں آتا اور موقع ملتے ہی اس سے نکل جاتا ہے۔

افغانستان کو اس حالت تک پہنچانے میں امریکہ کے حملے اور قبضے ۔کابھی کردار ہے۔ اب اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کو عزت کے ساتھ رکھے یا طالبان حکومت کے ساتھ ان کی بحفاظت حوالگی، آبادکاری اور خوشحال مستقبل کےلیے معاہدہ کرے اور اس کےلیے وسائل بھی مختص کرے۔

بے شمار افغان ماہرین اور ہنرمند ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور طالبان کو حکومت چلانے کےلیے تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہیں سلامتی اور خوشحال مستقبل کی ضمانت دی جائے تو کیا یہ واپس افغانستان آ جائیں گے؟

https://www.dailyaaj.com.pk/columnisit/tahir-ali-khan

ڈیلٹا کا خطرہ

روزنامہ آج۔ 2021-07-30

ڈیلٹا کا خطرہ
“””‘””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
طاہر علی خان

دنیا بھر میں کرونا کی ایک نئ شکل ڈیلٹا ویرئنٹ(ڈیلٹا متغیر) کے نام سے سامنے آئ ہے جو زیادہ متعدی اور تباہ کن ہے۔بھارت میں تباہی پھیلانے والے ڈیلٹا نے پاکستان کے صوبہ سندھ سمیت ملک کے دیگر خطوں میں بھی خطرے کا الارم بجانا شروع کردیا ہے۔ تو کیا حالات سنگین ہو جائیں گے، پہلے سے زیادہ لوگ بیمار اور مر جائیں گے؟ کیا ڈیلٹا کے خلاف قدرتی مدافعت اور حفاظتی ٹیکے موثر ہوں گے؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟

ویکسین لگانے کی کم شرح اور احتیاطی تدابیر کی بڑھتی ہوئ خلاف ورزیوں کے بعد اور ڈیلٹا کے ظہور کے بعد حالیہ دنوں میں کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح میں کئ مہینے بعد اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس ہفتے پاکستان ان تیس ملکوں میں شامل ہوا جن میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کرونا وائرس سے متاثر ہیں۔ روزانہ رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد ملک بھر میں چار ہزار سے زیادہ ہوگئ ہے۔ کراچی میں 100 فیصد کورونا کیسز میں ڈیلٹا رپورٹ ہورہا ہے ۔

پاکستان میں جس طرح کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور اکثر شہری ویکسین لگوانے میں جیسی تاخیر کررہے ہیں اس کے پیش نظر خدشہ ہے کہ وطنِ عزیز میں بھی کرونا وبا کی صورتحال خطرناک اور ناقابل برداشت ہوجائے گی، جلد ملک میں دوبارہ لاک ڈاون کا اعلان کرنا ہوگا اور تعلیمی اداروں، تجارتی سرگرمیوں اور آمد ورفت پر 2020 جیسی پابندیاں پھر لاگو کرنا ہوں گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس مہینے کے شروع میں کرونا کی چوتھی لہر سے اور بالخصوص ڈیلٹا سے عوام کو خبردار کیا تھا اور انہیں ویکسین لگوانے، بار بار ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور  سماجی فاصلہ اختیار کرنے کا کہا تھا۔ ۔

کرونا کی چوتھی لہر ابھی پوری طرح سے نہیں آئی اور اگر آگئی تو خدانخواستہ ملک بھارت جیسی صورتحال کا سامنا کرسکتا ہے اور یہ صحت کےنظام پر بڑا بوجھ ڈال دے گا۔

حفظان صحت کے اصولوں سے عدم واقفیت یا لاپرواہی، میل جول میں بے احتیاطی، وبا کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر کے بجائے جھاڑ پھونک اور غیر شرعی توکل اختیار کرنے، ملک میں علاج معالجے اور تشخیصی سہولتوں کےفقدان اور ویکسین لگوانے میں تامل و تاخیر نے وبا کے خطرے میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

جب ایک طرف شعور و احتیاط کی کمی ہے اور دوسری طرف سازشی نظریات اور خام تصورِ توکل عوام کو احتیاط سے روک رہے ہوں تو پھر، خاکم بدہن، ہمیں کسی بڑے سانحے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ڈیلٹا وائرس اب تک نوےممالک میں پھیل چکا ہے۔ جولائ میں ڈیلٹا ویرئینٹ امریکا، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، بھارت اور دیگر ممالک میں کورونا کی ایک غالب قسم بن کر سامنے آیا ہے۔ خاص طور پر برطانیہ میں ڈیلٹا ویرئینٹ کے نئے کیسز عام کورونا کے مقابلے میں 97 فیصد سے زائد ہیں اور امریکہ میں بھی اب ڈیلٹا کی وجہ سے کرونا انفیکشن اور اموات زیادہ ہوگئ ہیں۔ امریکا میں کووڈ کے نئے کیسز میں ڈیلٹا سے متاثر افراد کی تعداد 83 فیصد ہے۔

ڈیلٹا متغیر کرونا وائرس کا زیادہ خطرناک اور مہلک قسم ہے جو تیزی سے پھیلتا اور دوسری اقسام کی نسبت زیادہ لمبے عرصے تک جسم میں موجود رہتا ہے۔

یہ2019 میں چین میں پہلی بار سامنے آنے والے کوویڈ-19کے مقابلے میں ساٹھ فیصد زیادہ متعدی ہے۔ اس میں بھی کورونا کی طرح مستقل کھانسی، سردرد، بخار اور گلے کی سوزش کی علامات ہوتی ہیں تاہم بعض مریضوں میں سردرد، گلے کی سوجن، نزلہ اور بخار کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں۔

یہ 2019 والے وائرس سے تقریبا ایک ہزار گنا زیادہ وائرل لوڈ پیدا کرتا ہے اور جتنا لوڈ زیادہ ہوتا ہے اتنی بیماری کی سختیاں اور اموات زیادہ ہوجاتی ہیں۔

خطرے کی بات یہ ہے کہ ڈیلٹا ویکسین لگوانے والوں کو بھی نہیں بخش رہی ہے اور ویکسین کی پہلی خوراک بطور خاص اس کا راستہ روکنے کے قابل نہیں۔ تاہم ویکسین نہ لگوانے والوں پر حملہ شدید تر ہوتا ہے جبکہ ایک یا دو ویکسین والے شدید حملے سے محفوظ ہوتے ہیں۔

کراچی کے ہسپتالوں میں داخل مریضوں پرکی گئ ایک تحقیق کے مطابق 76 فی صد افراد کو پہلی ویکسین اور 24 فی صد کو دوسری بھی لگی تھی۔ تاہم ایک ویکسین لگوانے والے مریضوں پر دو ویکسین لگوانے والوں کے مقابلے میں مرض کی شدت زیادہ تھی۔

اب تک موڈرنا، فائزر، جانسن اور جانسن اور نوووایکس کرونا کے تمام معلوم و نامعلوم اقسام سے محفوظ رکھنے میں موثر رہی ہیں۔

لیبارٹری تحقیق سے پتا چلا گاما متغیر، جس سے ڈیلٹا کا تعلق ہے، کے خلاف پہلے سے لگا ہوا ایک ویکسین کم موثر ہے۔ تاہم افادیت میں کمی کا مطلب بالکل غیر موثر ہونا نہیں جیسے انفلوئنزا کی ویکسین بیماری سے بچانے میں صرف 30 سے 50 فیصد موثر ہے لیکن آئی سی یو میں جانے سے روکنے میں 80 فیصد کارآمد ہے۔ یعنی مکمل ویکسین لگوانے والوں میں بیماری یا اس کے شدید حملے سے بچ جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

تاریخ یہی سکھاتی ہے کہ کسی وبا کے بعد کے مرحلے پہلے مرحلے سے اکثر زیادہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ مثلاً پانچوں انفلوئنزا۔

انیس سو نواسی میں میں شروع ہونے والا انفلوئنزا دوسرے سال برطانیہ میں دگنا مہلک تھا اور بہت سے ممالک میں تیسرے سال اور بھی مہلک تھا۔ 1918 ء کی وبا میں پہلی لہر ہلکی اور کم متعدی تھی مگر پھر تباہ کن دوسری لہر آگئی۔ 1957 میں انفلوئنزا سے اموات میں نمایاں اضافہ ہوا لیکن 1960 میں، ویکسین تیار ہونے کے بعد اور اس کی وجہ سے اکثر لوگوں کے محفوظ ہوجانے کے باوجود، شرح اموات مزید بڑھ گئی تھی۔ 1968 میں امریکہ میں پہلے سال زیادہ اموات ہوئیں لیکن یورپ میں ویکسین تیار اور استعمال ہونے کے باوجود دوسرا سال زیادہ مہلک ثابت ہوا۔2009 میں بھی ایسا ہوا۔

کسی سانحے سے بچنے کےلیے ویکسین لگانے کاعمل تیز کرنے اور احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

چین میں ایک ارب، امریکہ میں تیس کروڑ، جرمنی میں آدھی آبادی اور بھوٹان میں بھی ایک ہفتے میں نوے فیصد بالغ آبادی کو ویکسین لگادی گئ۔

اگرچہ پاکستان میں فروری میں لازمی ویکسین لگوانے کا کام شروع ہوا ۔ حکومت کا ہدف سات کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا تھا مگر اب تک صرف پچاس لاکھ افراد دونوں لازمی ویکسین جبکہ دو کروڑ ایک ویکسین لگوا چکے ہیں۔ اب حکومت دسمبر 2021 تک ملک کی8.5کروڑ آبادی کو ویکسین لگوانا چاہتی ہے۔

کل اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کرونا ریلیف پیکج کی 352 ارب روپے بقایا رقم سے ویکسین خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

کرونا کے خلاف مدافعتی نظام مضبوط کرنے اور اس کے شدید حملے اور ہسپتال سے بچنے کےلیے مکمل ویکسین لگوانا بہترین تحفظ ہے تاہم ماہرین کے مطابق جو افراد ویکسین لگوا لیں انہیں بھی ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے خصوصاً جب کوئ اندرونی پروگرام ہو اور وہاں ایسے لوگ ہوں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائ ہے۔

کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی کےلیے شعور، عزم، احتیاطی تدابیر، آبادی کی اکثریت کو ویکسین لگوانا اورمشترکہ کوششیں ضروری ہیں مگر ہمارے لائحۂ عمل میں یہ سب عناصرتاحال مفقود ہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ حکومت احتیاطی تدابی پر عمل کےلیے میڈیا، اساتذہ، علماء، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں اور غیر سیاسی گروہوں اور شخصیات سے مدد لے۔ تاہم عوام کو ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں اور مہنگائی سے بچانے کےلیے ٹھوس منصوبہ بنائے۔ اور قارئین آپ خود احتیاط کرنا چاہیں گے یا پھر ہسپتال یا قرنطینہ میں علاج، انتخاب آپ کا ہے۔

https://www.dailyaaj.com.pk/columnisit/tahir-ali-khan

Noor Muqaddam Case and Victim Blaming

Noor Muqaddam case and Victim Blaming

Tahir Ali Khan)
29-07-2021

A friend with a legal mind today posted this message in a group.

“Theory of crime says that
1)criminals have inherited the desire to commit crime.Its in their genes
2)If someone gets an opportunity to commit a crime ,he/she will do it.

This (Noor Muqaddam) case lies in the second category. If the victim had left such issues as marriage, proposal and its rejection or acceptance to parents as is normally done and as Sharia advises us as such, she might not have have met this fate.”

My response to the post was the following.

“This is called victimblaming. It tantamounts to creating excuses for the criminal and his criminal.

No criminal can escape punishment over the excuse that the victim gave him an opportunity and no victim can be held responsible for his/her murder for that matter.

It is a planned, cold-blooded murder, the murderer must be punished and we must support his conviction and eventual execution

ایران، طالبان اور افغانستان

روزنامہ آج۔ 2021-07-26

ایران، افغانستان اور طالبان
طاہر علی خان
افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد جو نئ صورتحال سامنے آئ ہے اس میں ایران اور طالبان دونوں اپنی تلخ ماضی کو دفن کرنے اور نئ شروعات کرنے کےلیے آمادہ نظر آرہے ہیں۔

افغان طالبان اور دیگر افغان گروہ ایران میں مذاکرات کررہے ہیں

ایران اور طالبان دونوں ماضی میں اپنے اپنے مسلک سے وابستگی کے زیراثر ایک دوسرے کے خلاف اقدامات اٹھاتے رہے ہیں جن سے دونوں کا نقصان بھی ہوا اور ان کے باہمی تعلقات سردمہری اور نفرت کا شکار رہے۔

مگر اب دونوں کو احساس ہو گیا ہے کہ اپنی ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر احترام، اعتماد اور مفاہمت کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات قائم کریں۔ دونوں ماضی کی کدورتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقت پسندی اور اعتدال پسندی کی طرف آگئے ہیں۔ ایران ماضی میں طالبان کو سعودی عرب کا اتحادی اور اہل سنت کے انتہاپسند طبقہ فکر کا علمبردار سمجھتے ہوئے ان سے نالاں تھا لیکن اب وہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے۔ پہلے ایران کی ایما پر افغانستان میں ایران نواز شیعہ گروہ طالبان کے ساتھ کھلم کھلا برسرپیکار تھے تو اب یہ گروہ طالبان کے ساتھ مل رہے ہیں یا بغیر مزاحمت کے اپنے علاقے ان کے حوالے کررہے ہیں۔ ایران نے اگر افغانستان میں مداخلت، طالبان کی مخالفت اور وہاں شیعہ گروہوں کی مدد چھوڑ دی ہے تو طالبان کی موجودہ قیادت بھی ماضی کے مقابلے میں مخالف فرقوں، ہمسایہ ملکوں اور بین الاقوامی تقاضوں بارے زیادہ رواداری اور حساسیت دکھا رہے ہیں۔ وہ ماضی میں اہل تشیع بارے انتہاپسندی کا شکار تھے لیکن اب پچھلے دنوں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ایجنسی تسنیم کو بتایا کہ ’ہم اپنے شیعہ بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے خلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا، اور ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے پہلی طالبان حکومت کے قیام کے بعد ایران کے ساتھ غیر خوشگوار تعلقات کا ذمہ دار ملک میں خانہ جنگی اور ناتجربہ کاری کو قرار دیا۔

یاد رہے اگست 1988 میں مزار شریف میں ایران نواز کمانڈروں نے طالبان کے سیکڑوں اہلکار مار دیئے۔ اس کے بعد جب مزار شریف پر طالبان کا قبضہ ہوا تو انہوں نے ایرانی قونصلیٹ پر دھاوا بول کر دس ایرانی سفارتکاروں اور ایک ایرانی صحافی سمیت شہر میں اہل تشیع کے سیکڑوں افراد قتل کر دئیے اور ایران نواز حزب وحدت کے سربراہ کو مبینہ طور پر ہیلی کاپٹر سے نیچے گراکر مارا تھا۔ تب ایران نے طالبان کو دھمکانے یا عملی جنگ کےلیے 70 ہزار فوجی افغانستان کے سرحد پر مجتمع کیے۔ طالبان نے اس پر افغانستان میں کجکی ڈیم سے ایران کو پانی کی سپلائ کم کر دی جس سے ایران کو بڑا نقصان ہوا۔ واضح رہےافغانستان سے ایران کی طرف دو بڑے دریا دریائے ہلمند اور ہری رڈ بہتے ہیں۔ یہاں سے پانی کم یا بند ہو جائے تو نیچے رہنے والی ایرانی برادریوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔

اگرچہ ایران افغانستان میں امریکی موجودگی کا مخالف تھا اور اسے اپنےلیے خطرہ سمجھتا تھا مگر طالبان کے ظہور اور ان کے دور حکومت میں ایران کے ساتھ افغانستان کے تعلقات غیر خوشگوار تھے چنانچہ ایران نے طالبان کے خلاف اکتوبر 2001 میں امریکی کارروائ کی مزاحمت نہیں کی۔ مگر پھر جب امریکہ کے خلاف طالبان کی مزاحمت مزاحمت مضبوط ہوگئ اور روس اور چین بھی ان کی پشت پناہی کرنے لگے تو مشترکہ دشمن امریکہ کے خلاف رفتہ رفتہ سب قریب آتے گئے۔ ماضی میں افغان حکومت، امریکہ اور نیٹو کئ مرتبہ ایران اور اس کے پاسداران انقلاب پر الزام لگاچکے ہیں کہ وہ طالبان کو مالی اور فوجی مدد فراہم کررہے ہیں۔

ایران کو خدشہ ہے افغانستان میں افغان گروہوں کے درمیان مفاہمت نہ ہوسکی اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوئ تو ایران کی طرف مہاجرین کا سیلاب آئے گا۔ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ طالبان کی واپسی کے بعد داعش پھر افغانستان میں مضبوط ہوجائے گی جو ایران کےلیے پریشانی کا باعث ہوگی۔ ایران طالبان کو زمینی حقیقت اور انہیں خانہ جنگی یا داعش کے مقابلے میں کم تر برائ سمجھتا ہے۔ ایک طرف چنانچہ یہ طالبان سے تعلقات بہتر بنانے اور دوسری طرف افغان مصالحت کےلیے کوششیں کررہا ہے۔ تاکہ ان دونوں منفی اثرات سے خود کو ںچا سکے۔

ایران افغان تصفیہ کےلیے جو دوڑ دھوپ کررہا ہے پاکستان،چین اور روس بھی اس کے حامی ہیں۔ تہران میں 9 جولائ کو ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں فریقین نے اتفاق کیا کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہیں، پرامن سیاسی حل اور اسلامی ریاست کے قیام کےلیے مذاکرات جاری رہیں گے۔

ایران نے چا پانچ سال قبل افغان فریقین کے مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی تھی جس کےلیے افغان حکومت نے درخواست کی تھی۔ طالبان کے امیر ملا اختر منصور شاید ایران اسی مقصد کےلیے گئے تھے اور پاکستان واپس آتے ہوئے امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ مگر تب طالبان نے مگر افغان حکومت پر امریکی اثرورسوخ کے باعث مذاکرات سے معذوری ظاہر کردی۔ پھر جب امریکہ طالبان معاہدہ کے بعد افغانستان سے نکلنے کا اعلان کیا تو افغان گروہوں اور طالبان کے مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئ۔ تب ایران نے افغانستان میں قیام امن کیلئے قومی حکومت کی تشکیل کا منصوبہ پیش کر دیا تھا لیکن امریکہ نے بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ سے قبل طالبان سے براہ راست مذاکرات و معاہدہ کرکے اور بین الافغان مذاکرات سے پہلوتہی کرکے معاملہ خراب کردیا۔ مگر اب امریکہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہے گا کہ اس کا مخالف ایران، جسے وہ گھیرنا اور پریشان رکھنا چاہتا تھا، اب افغانستان میں ایک اہم عامل بن گیا ہے۔

ایران اور افغانستان کے مابین 945 کلومیٹر سرحد ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں۔ اب ایران کی سرحد پر واقع کئ افغان اضلاع اور اہم گزرگاہوں پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔

چین اور ایران دونوں امریکہ کے خلاف مشترکہ نفرت اور مفاد کےلئے ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ برسوں سے عائد امریکی پابندیوں نے ایران کو چین اور روس کی طرف دھکیل دیا ہے۔چین نے ایران کے ساتھ اگلے پچیس برسوں میں چارسو ارب ڈالرز کے منصوبے شروع کرنے کا معاہدہ بھی کیا۔ چین کے پاکستان اور طالبان کے ساتھ بھی اچھے مراسم ہیں۔ اس طرح چین کے تعلقات سے ایران کو فائدہ پہنچے گا۔
نئ صورتحال میں بھارت بھی ایران کے ذریعے طالبان سے راہ و رسم بڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن ایران بہرحال بھارت کو سہولت دینے کےلیے چین اور پاکستان دونوں کو ناخوش کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ان حقائق کے پیش نظر طالبان اور ایران کے باہمی تعلقات امکان ہے کہ خوشگوار رہیں گے بشرط یہ کہ ایران اور طالبان دونوں اپنے اپنے مسالک سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں اور فائر برانڈ رہنماؤں کو کنٹرول کر سکیں۔

https://www.dailyaaj.com.pk/columnisit/tahir-ali-khan

آسٹرازنیکا، فائزر اور موڈرنا ویکسینز زیادہ موثر ہیں۔

آسٹرازنیکا، فائزر اور موڈرنا ویکسینز زیادہ موثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیویارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ فائزر اور موڈرنا ویکسین کرونا وائرس جے خلاف پائیدار تحفظ دے سکتی ہیں۔

خبر کے مطابق مدافعتی ردعمل پر ایک تفصیلی نظر کی رو سے فائزر اورموڈرنا کے ویکسینز کے اثرات کئ سالوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔

ان نتائج سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ویکسینز لگانے والے زیادہ تر لوگوں کو اضافی ویکسین کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ادھر برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ آکسفورڈ / آسٹرا زینیکا ویکسین کا تیسرا شاٹ ایک موثر بوسٹر ثابت ہوسکتا ہے۔

اخبار آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک مطالعہ کی بنیاد پر کہتا ہے کہ لوگوں کو دوسری خوراک کے چھ مہینے بعد آسٹرازنیکا کی تیسری خوراک دینے کے بعد ان کی انٹی باڈیز میں کافی اضافہ ہوا اور جسم کے ٹی-سیلز کی کرونا وائرس اور اس کی مختلف شکلوں سے لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔

طاہرعلی خان

دنیاکیسی ہوگی 2021

دنیاکیسی ہوگی 2021

طاہرعلی خان

مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنا آسان نہیں۔ مثلاً ایک سال قبل کسی کو کیا پتا تھا کہ ایک وبائی بیماری دنیا کی ہیئت مکمل تبدیل کرکے رکھ دے گی۔ آج نئے سال کا پہلا دن ہے۔ اس سال میں دنیا میں کیا کیا وقوع پذیر ہوسکتا ہے، اس پر لکھا جارہا ہے۔ امکان ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی کبھی خوش کن اور کبھی مایوس کن واقعات جاری رہیں گے۔

کورونا وائرس نے 2020 میں دنیا کو تبدیل کردیا ہے۔ دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 1.7 ملین ہوگئی یے اور کروڑوں اس سے لڑ رہے ہیں۔ وائرس کی نئی خطرناک شکلیں سامنے آرہی ہیں۔ عالمی معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ دنیا کو معمول پر لوٹ آنے میں خاصا وقت لگے گا۔ خوشخبری یہ ہے کہ دو انتہائی موثر ویکسین استعمال کے لئے منظور کرلی گئ ہیں اور مزید بنائ جارہی ہیں۔ مگر ویکسین کو وسیع پیمانے پر تقسیم کرنے میں بڑی مشکلیں پیش آئیں گی۔ اگرچہ دو ارب ویکسین لگائے جانے کا منصوبہ ہے مگر اس بارے سازشی نظریات، مالی مسائل اور ترسیل میں مشکلات کی وجہ سے یہ ٹارگٹ آسان نہیں۔ لگتا ہے ماسک پہننے، معاشرتی دوری، وائرس کی تشخیص اور علاج وغیرہ سے متعلق خبریں 2021 میں بھی چھائ رہیں گی۔

علاج معالجے،  نقل و حمل، پیغام رسانی ، ڈی این اے  اور برقی کاروں وغیرہ میں عالمی سطح پر  سائنس کی حیران کن ترقی کاسلسلہ جاری رہے گا۔ امریکہ میں ماحول دوست جو بائیڈن کی کامیابی اور اس سال انتخابات کے بعد جرمنی میں گرین پارٹی کی حکومت سازی میں متوقع اہم کردار سے امید کی جارہی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر بھی اب تیزی سے کام ہوگا۔

جو بائیڈن بیس جنوری کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 46 ویں صدر بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہیں ایک منقسم امریکہ ملا ہے۔ افغانستان اور چین وغیرہ جیسے خارجہ پالیسی چیلنجز، پیرس موسمیاتی معاہدے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ دوبارہ جا شامل ہونے، ایران سے جوہری پروگرام کے معاہدے کی تجدید، ششمالی کوریا کے میزائل یا جوہری تجربات اور امریکی حکومت اور کارپوریشنوں کے روس کی ہیکنگ سے پیدا شدہ مسائل وغیرہ انہیں درپیش ہیں۔ بائیڈن کو امید ہے وہ چین کے ساتھ معاملات ٹھیک کرلیں گے اور مرہم اور معافی کے اپنے اندرونی ایجنڈے پر بھی پیشرفت کرسکیں گے۔ کیا ان کی سرکردگی میں امریکہ ایک ہمدرد اور ذمہ دار ملک کےںطور پر ان سب امور پر مثبت کردار ادا کرسکے گا؟ اگر ہاں تو پھر امریکہ اور دنیا دونوں کو فائدہ ہوگا۔ انہیں اندرون ملک کانگریس کی طرف سے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد میں مسائل بھی ہوں گے تاہم اگر بائیڈن چھ جنوری کو جارجیا میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کو جتوا سکیں تو کانگریس کی طرف سے وہ مطمئن ہو جائیں گے۔ امکان بہرحال یہ ہے کہ ٹرمپ اور ان کا سیاسی ورثہ بائیڈن کے لیے مستقل درد سر بنے رہیں گے۔

 ماہرین کے مطابق امکان ہے کہ اس سال سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان سامنے ائے گا جو مشرق وسطیٰ  میں ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

چین تیزی سے اپنا اثر ورسوخ پھیلا رہا ہے۔ 2020 میں بھارت کے ساتھ اس کا سرحدی تصادم ہوا۔ اس نے ہانگ کانگ پر ایک نیا قومی سلامتی قانون نافذ کیا جو برطانیہ سے کیے گئے معاہدے کے بظاہر خلاف تھا اور جس سے وہاں منظم عوامی احتجاج اب مشکل نظر آرہا ہے۔ اس نے تائیوان کو بار بار امریکہ سے تعلقات مضبوط کرنے پر دھمکانے کی کوشش کی۔ وہ عالمی سیاست اور معیشت پر اجارہ داری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں مشرق وسطی اس کی دلچسپی کا ایک اور میدان ہے۔ اندازہ ہے کہ وہ اگلے سات برس میں امریکہ سے آگے نکل کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ چین کے ساتھ ماحول ٹھنڈا  رکھے گا  یا چین کا مقابلہ کرے گا۔ آنے والے مہینوں میں اس حوالے سے سرد و گرم دونوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔

غربت اور بے روزگاری میں بھی عالمی سطح پر اضافہ متوقع ہے۔ کوویڈ ۔19 نے 2020 میں عالمی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا۔ اس سال عالمی پیداوار 5.2 فیصد تک سکڑنے کا امکان ہے۔ وبا سے پہلے  شرح نمو  2.5 سے 3.4 فیصد تھی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 2022 کے بعد عالمی معاشی نمو کے لئے اپنے تخمینے کو کم کردیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ عالمی غربت میں اضافہ 2020 سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔ غریب ممالک  معاشی بدحالی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق وبائی امراض کی وجہ سے دنیا بھر میں انتہائی غربت میں ڈوبے لوگوں کی تعداد میں 120ملین کا اضافہ ہوا ہے۔

چین واحد واحد بڑی معیشت ہے جس نے 2020 میں ترقی کی۔ کم ملکی قرضے، سمجھدار معاشی نظم و نسق ، اور کورونا وائرس پر موثر کنٹرول کے اشاریوں پر چینی معیشت 2021 میں دنیا  کی ایک تہائی حصہ بن سکتی ہے۔ اس کے برعکس ، یورپ اور شمالی امریکہ کی معیشتیں  پیچھے رہنے اور ڈالر کا عالمی اثر و رسوخ کم ہونے کا امکان ہے۔ عالمی بینک نے کہا ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتیں، جو تجارت، سیاحت اور ترسیلات زر پر انحصار کرتی ہیں، خاص طور پر سخت نقصان میں ہوں گی۔ خوراک اور صاف پانی کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ بن رہا ہے۔ امکان اور خدشہ یہ ہےکہ معاشی پریشانیوں اور غربت سے مزید سیاسی تنازعات پیدا ہوں گے، چاہے ملکوں کے اندر ہوں یا ملکوں کے مابین۔

بھارت میں مودی سرکار مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں اپنی کامیابی دیکھ رہی ہے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے اور کسی بھی لمحے وہ اپنے سیاسی مقاصد کےلیے جنگ کی آگ بھڑکا سکتے ہیں۔

ستمبر گیارہ کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملوں نے دنیا کو تبدیل کر دیا تھا۔ مبصرین کو  خدشہ  ہے کہ جلد گیارہ ستمبر جیسا  ایک بڑا دہشت گرد حملہ ہوسکتا ہے جس سے پھر دنیا میں نئ صف بندی اور نفرت پیدا ہوگی۔

افغانستان میں امن کی کوششیں جلد کامیاب ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔ ایسے میں افغانستان پاکستان پر اپنی ناکامی کا ملبہ گرانے کےلیے الزامات کاسلسلہ جاری رکھے گا۔ پاکستان کو  ایک طرف چین اور امریکہ کے درمیان اور دوسری طرف عرب ممالک اور ترکی و ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کا توازن برقرار رکھنے کےلیے محنت  کرنی ہوگی۔ صدر ٹرمپ تو بغیر کسی بین الافغان معاہدے کے جون 2021  تک امریکی فوج  افغانستان سے نکالنا چاہتے تھے۔ اگر ایسا ہوا تو افغانستان ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔ اگر جو بائیڈن نے تمام علاقائی ملکوں اور نیٹو حلیفوں کی مدد سے افغان مذاکرات کی کامیابی کےلیے مخلصانہ کوشش کی تو وہاں امن آسکتا ہے۔

نگورنو کاراباخ، ایتھوپیا، مراکو کے صحراوی قوم، اسرائیل  فلسطین تنازعہ، روہنگیا مسلمانوں پر ظلم، افغان طالبان کا کامیابی، کشمیرمیں بھارتی اقدام وغیرہ جیسے واقعات طاقت کو مسائل حل کرنے کےلیے ایک بڑا عامل ثابت کیا ہے اور سفارت کاروں اور مصالحت کاروں کی وہ بات غلط ثابت کردی ہے کہ سیاسی مسائل کا کوئ فوجی حل نہیں ہوتا۔ دعا ہے کہ اس سال پرامن جمہوری تحریک آزادی و کامیابی کا واحد راستہ ثابت ہوجائے۔

اگلے سال جرمنی،  ہالینڈ، ایران سمیت دس ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن ماہرین کہتے ہیں دنیا بھر میں جمہوریت کو بھی لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں۔ انتہاپسندی کےلیے اگر پہلے تیسری دنیا بدنام تھی تو اب امریکہ، فرانس اور بھارت جیسے بڑے بڑے بزعم خود جمہوریت کے علمبردار ممالک میں بھی تنگ نظری اور انتہاپسندی بڑھ چکی ہے۔ یہ سلسلہ اگلے سال مزید تیز ہونے کا امکان ہے۔ فریڈم ہاؤس نے بھی اطلاع دی ہے کہ مسلسل چودہ سالوں سے پوری دنیا میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سکڑ تی جارہی ہیں۔ برازیل ، ہنگری ، فلپائن ، پولینڈ ،  ترکی  اور بھارت جیسے ممالک میں پاپولسٹ رہنماؤں نے  ایسی پالیسیاں نافذ کیں جن سے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ چین ہانگ کانگ میں بھی احتجاج اور اختلاف کو ںہت مشکل بنا رہا ہے۔ میانمار میں ماضی کی جمپوریت نواز آنگ سان سوچی کی حکومت کی چشم پوشی یا تلویث کی وجہ سے مسلمان اقلیت پر ظلم ڈھائے گئے۔ بیلاروس کے لوگ  انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ آنے والے امریکی صدر جو بائیڈن نے جمہوری اقدار کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مگر  مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہی ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتیجہ تسلیم کرنے سے انکار ، بڑے پیمانے پر انتخابی دھوکہ دہی کے جھوٹے دعووں، نتائج تبدیل کرنے کی لامتناہی کوششوں اور مختلف سازشی نظریات پھیلانے سے وہاں جمہوریت، سرکاری نظام اور میڈیا پر عوامی اعتماد کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایسا نہ ہو جب بائیڈن نے دنیا بھر میں جمہوری اقدار کی بحالی کےلیے آواز اٹھائیں تو ان کو یہ کہا جائے “میاں پہلے اپنے گھر کی خبر لو اور اسے ٹھیک کرو۔”۔

Extremism will destroy India

Extremism will destroy India

Tahir Ali Khan

Although the major countries of the world are showing carelessness towards the phenomenon for their own interests and most in India are also denying its existence, the truth is that India has become a center of Hindu nationalism, racism, bigotry, extremism and violence. In the words of the Congress leader Rahul Gandhi, an embarrassing fact is that Dalits, Muslims and tribes are not considered human beings herenin India.

Violence against minorities, the weak and women is common in most countries but in India it is happening under government umbrella.

India, a nuclear-armed country with a population of 1.5 billion, has been occupied by the Nazi-influenced RSS. Extremist Hindu militias armed with spears and sticks with overt or tacit support from the government have cut loose a reign of terror against minorities.

Extremism and intolerance in India pose a serious threat to the security of all minorities, especially Muslims. India’s path of hatred, religious extremism and racism has resulted in and will further entail bloodshed and destruction.

History shows that every nation that has taken this path has suffered loss, chaos and destruction. Everyone in Nazi Germany, Rowanda, Myanmar, the former Yugoslavia, etc. has seen the result of this policy. If India doesn’t correct its behaviour, it is bound to meet the same catastrophic fate.

Mahatma Gandhi writes in his book, “The India of My Dreams: “I am convinced that India will emerge as a beacon for the whole world. If India accepts the ideology of violence, it will be a test for me. My religion doesn’t need any geographical boundaries. My patriotism is subject to my religion. My whole life (through the philosophy of non-violence) is dedicated to the service of India. The day India declares its belief in violence, I would prefer to leave India. Then I will not be proud of India. “

If Gandhi were alive today, he would surely have shed tears of blood over the extremist transformation of India and he would have surely left it because violence has now become the basic identity and policy of the Indian government. Given the persecution of the weak, women and minorities in today’s India, the souls of Gotham, Nanak, Chishti and Kabir may surely be weeping blood.

India has long been proud of its democracy and secularism. Peaceful coexistence, tolerance and respect for the beliefs and customs of all religions is the only way but unfortunately India has not been able to get rid of racial, national, sectarian and religious prejudices. If India wants to play a leading role in the region and the world, it must be a model of love, forgiveness and compassion instead of hatred, narrow-mindedness and oppression.

Democracy and tolerance are essential for peace in India,l but the BJP and Modi are promoting hatred, Hindu nationalism and extremism for their political interests.

The Bharatiya Janata Party may have won the government twice with its narrative of hatred and extremism but the face of Indian secularism and democracy has got distorted in the process.

Indian Hindus, despite being a majority, consider themselves in danger. They are indulging in continuous false propaganda which is fueling fear, reactionary psyche and extremism in them. This is nothing short of a message of doom for India’s secular state, politics and pluralistic democracy.

Earlier, India was a secular society that prided itself in its diversity and plurality. Indian constitution also spoke of a secular India. Indian citizenship was available not on the basis of blood, caste and creed but on the basis of a person’s birth. Hindutva leaders existed in Indian society even before the formation of Pakistan and called India only the land of Hindus, but until 1980 they were in minority.

But the campaign for the demolition of the Babri Masjid and construction of the Ram Mandir in the 1990s turned the extremist BJP into a major party, it grew stronger and stronger as much as winning 282 seats in Parliament in 2014 and 303 in 2019.

When RSS activist Narendra Modi became Gujarat’s chief minister, 2,000 people were killed in government-sponsored anti-Muslim riots there. Due to the involvement of Modi government in this, the doors of America were closed on Modi.

It was a turning point on which the free world should have boycotted India altogether but all remained silent.

Modi and the BJP, in order to gain power, blamed Pakistan and Muslims for all the ills of India and thus spread hatred against them, spearheaded terror campaigns against them and declared preserving Hindu Dharma and making India a pure Hindu state as their main agenda.

For several years now, campaigns of hatred and extremism have been carried out with support of the Modi government, government agencies and popular news channels, and the courts are often sympathetic to this populist tide by making inappropriate and biased decisions or not hearing human rights appeals.

It is pertinent to mention that the BJP has appointed Chief Justice Ranjan Gokoi a member of the Rajya Sabha who ruled on the petitions filed in the Babri Masjid case and the Rafale warplane deal with France, which is a clear indication of conflict of interest. Many of his decisions have benefited Modi politically.

The journey towards intolerance, narrow-mindedness and violence in India has been going on for a long time. Since December 2019, the Modi government has let loose a reign of terror and oppression over Kashmiris and has turned Kashmir into jail since then.

Minorities and Dalits continue to be treated inhumanly in India. Here are a few examples.

In October, India’s popular jewelery company Tanshik ran a 45-second advertisement featuring an interfaith wedding, showing how a Muslim family performs Hindu rituals to please their pregnant Hindu daughter-in-law. An organized campaign called “Love Jihad” was immediately launched against the ad and threats were hurled at the company and the actors who worked in the ad. The company, hence, withdrew the advertisement within 24 hours for the safety of its workers.

In October, Amnesty International had to close its offices in India because of Indian government’s displeasure and outrage over its demands for transparency in government affairs, its scathing reports on police support for Hindu rioters in the anti-Muslim riots in Delhi and the role of the Indian government in rights violations in Kashmir and its briefing in the US Congress against the Indian government.

The Modi government wants to make India a one-party state. After his arrival, India has lost its tolerance for dissent and criticism and those who criticize the government are called traitors and agents of Pakistan.

A treason case has been registered against a professor at Delhi’s Jawaharlal Nehru University for speaking out against the Modi government’s discriminatory laws and he has been sent to jail.

Twenty-seven-year-old Kashmiri student Safora Zargar, who is pregnant, is also in jail for speaking out against the Citizenship Amendment Bill.

The prosecution also mentioned in the treason case against Sharjeel Imam that he was reading a book by Paul Brass, a well-known writer, which it said made him an extremist.

Many liberal leaders who spoke out against narrow-mindedness, such as MM Kalbergi, Narendra Dabholkar, Govind Pansari and Gauri Lankesh, were allegedly assassinated by right-wing Hindu extremists.

The BJP’s student wing targets liberal academics. Movies and books are banned. That is why the graph of civil liberties, freedom of expression, rule of law and academic freedom in India has come down almost three times since the formation of the Modi government.

In October, popular Indian actress Deepika Padukone was questioned by the Narcotics Control Board of India for six hours. The reason was apparently a drug investigation but in fact it was that Deepika had expressed solidarity with the student movement against the controversial citizenship law in January.

The move sent a message to her and other Bollywood workers toe the line. A BJP member in Parliament last month termed Bollywood as a drug den. A well-known actress said at this that it was an attempt to discredit and silence Bollywood because we have the potential to influence the masses.

On Gandhi’s birthday this year on January 30, a Hindu youth opened fire on a peaceful rally against the Citizenship Amendment Act at the Jamia Millia Islamia in Delhi. But the police stood by as silent spectators. Like last year’s New Zealand shooter, he showed some of his actions live on Facebook. In the cover photo, he stood with a sword and wrote in his feed that he wanted revenge on the protesters in Shaheen Bagh. He chanted slogans to kill traitors on Facebook and wrote that if he died killing nationalist opponents, his body must be covered with saffron.

In the Delhi election campaign, Anurag Thackeray, a minister in the Modi government, chanted slogans like “Shoot the traitors of the country” After that, Amit Shah, Modi’s expected successor, also told a public meeting that you should press the election button so angrily that the people of Shaheen Bagh come to know about it. It should be noted that Muslim women were protesting against the Citizenship Amendment Bill in Shaheen Bagh.

Obviously, this shooter was also motivated by the same hatred that led to Gandhi’s assassination. It may be recalled that a Hindu nationalist Nathuram Godse, who was an activist of the RSS –the ideological source of today’s BJP— assassinated Gandhi accusing him of showing leniency towards Muslims. Godse is now remembered as a martyr and hero of Hindu Dharma.

Protests by women against the controversial citizenship law were attacked in the Mojpur area of ​​Delhi, and BJP and RSS extremists and police joined forces to crack down on protesters, while Muslim houses, shops and vehicles were set on fire.

When Modi became the Prime Minister in 2014, he was very careful. He spoke of “all together and progress for all.” Although there was talk of a Hindu state and he did not condemn the anti-Muslim measures taken by Hindu extremists in the name of protecting “Gao Mata”, when he got an overwhelming majority in 2019, he took off all the veils and is now bent upon making India purely and completely a Hindu state.

Keeping the UN resolutions at bay and repealing Kashmir’s sovereign status in the Indian Constitution, the Modi government made it a normal part of India and turned Kashmir into a virtual prison. Nehru had said, “If Kashmiris do not want to live with us, let them go their own way and we shall go ours. We do not want forced marriages and forced unions.” But Modi ended Kashmir’s socalled autonomy in the Indian constitution and began working to turn the Muslim majority there into a minority.

In December 2019, India’s citizenship law was amended to allow aspirants for Indian citizenship from six neighboring countries but Muslims were excluded.

He then launched a national register campaign in various Indian states. It stoked fears of revoking the citizenship of those who converted from Hinduism to Islam.

The RSS has long been saying that India should be a Hindu state. It asks Muslims to convert to Hinduism again or leave India. It is defaming Muslims with propaganda of “Corona Jihad” and “Love Jihad”.

At present most Hindus in India hate or fear Muslims. The media in India is also engaged in spreading Islamophobia and appeasing the Modi government.

Subramanian Swamy, a BJP leader, termed Muslims a threat to India, refused to recognize them as equal citizens of Hindus and demanded that they be deprived of the right to vote. He said that a country with a Muslim population of more than 30% is always in danger.

Obviously, situation becomes extremely dangerous for minotities when there is so much hatred and intolerance in majority ranks for them.

That is why the well-known Indian writer and political activist Arun Dutti Rai also said a few months ago that the situation for Muslims in India is heading towards genocide.

All these incidents make it clear that India is on the path to becoming a Fascist state. We see how President Trump, in his hunger for power, has put American democracy under extreme stress and threat. Even his friend Modi has no concern for India’s international reputation and democratic features.

Well known Indian journalist Khushwant Singh had rightly said in a column that “a group formed on the basis of hatred maintains its existence by creating fear and terror. In India, those who consider themselves safe not being Sikhs and Muslims are living in fool’s paradise. Soon time will come when organizations born with the ideology of Hindu supremacy will be a threat to everyone except themselves.”

Popular newspapers such as The Economist, The Post, The New York Times, The Wall Street Journal, etc. have been sharply critical of Modi’s divisive agenda and intolerance but Modi’s stubbornness and populist extremist rhetoric is growing stronger. He speaks of Gandhi’s peaceful teachings abroad but is a propagandist of extremism at home. Recently, Modi called the newly elected US President Joe Biden. Biden’s team said, among other things, that the two leaders discussed their common vision for strengthening democracy at home and abroad. However, this part was missing in the pressnote issued by Modi’s office.

The writer is an academic and writer who can be contacted at tahirkatlang039@gmail.com

Afghan Negotiations: Problems and Concerns

Afghan Negotiations: Problems and Concerns

Tahir Ali Khan

Negotiations are underway in Qatar between the Taliban, the Afghan government and Afghan civil society. All want an early agreement for peace and stability in war-torn Afghanistan, but for several difficulties and concerns, it seems distant dream at the moment.

There are lots of differences of mind and preferences, mistrust and misgivings between the two sides. Neither the United States and the Afghan government have full confidence in the Taliban, not the Taliban have in them.

These differences and misgivings exist between the rival groups as well as within each group itself. For example, when the purpose of dialogue, which is part of the 23-point code of conduct, was being written, the government wanted it to be end of the war, while the Taliban were in favor of the word jihad. Someone called for an end to the problems, but after much discussion, the words the end of the conflict were agreed upon. Or when the two sides started talks, Masoom Stanekzai, a key member of the Afghan negotiators, said, “Let’s start introduction from the left.” At this, Abbas Stanikzai, the Taliban’s chief negotiator, said, “You guys do everything from the left, while we Mujahideen always start from the right.” It meant that from the very outset, the parties were soon mentally in the atmosphere of forty years ago when the division of the right and the left was deep and there was a tussle between the communists and the Islamists that culminated in USSR intervention in 1979.

US President Donald Trump wants a ceasefire and an Afghan peace deal in Afghanistan ahead of the November 3 US presidential election. The Afghan government also wants a ceasefire and a halt or reduction in violence, but the Taliban are not ready for any at the moment. They want to determine the future system of the government and the details of the interim government before these things happen.

The question is who will join the interim government and how will the next government be elected? Will the Taliban accept democracy and the current democratic system and contest elections as a political group? If they opt for democracy and elections, will they be able to satisfy their hardline leaders and supporters? Will they be able to give a policy regarding women, minorities and other religious sects that is acceptable to all Afghans and the world? What will be the role of Al Qaeda, ISIS, Haqqani Network and Gulbuddin Hekmatyar etc.? What will happen to the current Afghan army and former Mujahideen and their commanders? Will they get a general amnesty and be integrated into the Afghan army or will they be prosecuted?

The Taliban say that women and minorities will be given all rights according to Sharia, but they want to make Hanafi jurisprudence the law of the land. Does it have a place in the current constitution of Afghanistan and will other groups agree to it?

In addition, issues such as rule of law, permanent and interim judiciary, formation and strengthening of other institutions, accountability, distribution of resources, etc. remain to be decided.

It remains to bebseen whether the role of regional and global powers be constructive or destructive? Afghans have also to agree on a common Afghan culture and the future structure of the Afghan state?

And if President Trump loses the election, will the new president adopt his policy or will the process come to an end?

In the February 29 Taliban-US agreement, the Taliban promised not to pose a threat to the United States and its allies, not to cooperate with armed groups intent on attacking tge US, and to negotiate with the Afghan government and groups.

After fulfillment of the above promises made by the Taliban, the United States has promised to withdraw all foreign forces, including its army, lift sanctions on the Taliban, provide resources for the reconstruction of Afghanistan with the cooperation of all allies and the United Nations and not to interfere in Afghanistan in future.

This agreement was followed by the signing of a four-point declaration between the United States and the Afghan government which included the statement of Taliban’s anti-terrorism pledges, the withdrawal of foreign troops, intra-Afghan talks, a ceasefire and to prevent Afghanistan from becoming a bastion of terrorist groups such as Al Qaeda and ISIS.

These points are interconnected and interdependent. But no joint document has emerged on the details of their interrelationship.

So what if the Taliban declare a ceasefire tomorrow, will all its commanders accept this decision? Or if the United States says that the conditions for evacuation have not been met so the US troops will not leave and the sanctions on the Taliban will remain intact, then what will be the reaction of the Taliban?

There are concerns inside and outside the country about the future contours of Afghan government system. It is also feared that Afghanistan will again become a threat to regional and global peace. But these concerns should not be an obstacle a to constructive dialogue.

In order to pave the way for the February 29 Taliban-US agreement and the ongoing inter-Afghan talks, the Taliban, the United States and the Afghan government had to step back from many of their declared positions and make concessions to the other side. Without patience, understanding, sacrifice and sincerity, it is still difficult to succeed in negotiations.

It is hoped that through a dialogue held with a spirit of compromise and in an atmosphere free from outside foreign occupation and interference, all Afghan groups will ensure that Afghanistan is a responsible country of the international community, a center of peace and stability and not a threat to any country. Rehabilitation and reconstruction require the continued support of the international community. Other countries should also respect its independence and integrity and make it a field of cooperation, and not of a competition for pursuing their strategic interest.

At present, negotiations and violence are going on simultaneously. It is feared that a major attack could break up the talks at any time so that the parties will do good to reduce or end the violence for the success of the talks.

And until all the important Afghan ethnic, political and religious groups reach on a consensus Afghan peace agreement and Afghanistan’s own forces aren’t able to keep the whole country safe, foreign forces must stay here or else Afghanistan will be prone to a civil war again just as it did in 1989 when the Red Army had left without such Intra-Afghan agreement.

Tahir Ali Khan is a Pakistan based academic who can be reached at tahirkatlang039@gmail.com

Who benefited the most from the Sugar crisis?

Who benefited the most from the Sugar crisis?

Tahir Ali Khan

Jahangir Tareen has said that he has provided 20,000 metric tonnes of sugar to the utility stores at Rs 67 per kg, thus benefiting the people with 25 million.

This means that they has incurred loss and benefitted of the public by selling it at Rs 67 per kg, Rs thirteen rupees less than the market rate (of Rs 80 per kg).

When the PTI government was set up in August 2018, the retail price of sugar was 53 and the wholesale price was Rs 47 per kg.

According to the data given in the link below, in the fourteen months up to December 2019 in the current government, the retail price in the country increased to Rs 80 and wholesale price to Rs68. Thus, the price of sugar in retail increased by Rs 27 and wholesale by Rs 21 per kg.

Total sugar production in Pakistan is about six billion kilograms. In this way, the sugar makers got an additional Rs.162 billion on the basis of additional Rs 27 per kg. If we base our estimate at Rs 21 per kg, they get an additional Rs 126 billion. Even by careful estimates, they will get an extra Rs100.

If Jahangir Tareen had sold these twenty metric thousand tonnes or two crore kilograms of sugar to the utility stores at Rs 53 per kg, it would have been worth one billion and six crore rupees, but, he said, he sold it at Rs 67 per kg. Thus, its total value goes up to Rs.1.34 billion. Thus, he got an additional profit of Rs. 28 crores against the previous year rate.

According to him, he made a profit of Rs 25 crores by selling the utility stores at Rs 67, less than the market rate but he did not say that how many billions were earned by his sugar companies as and when they sold hundreds of millions of kilograms of sugar by selling it at a rate Rs27 higher than the previous year.

Remember that according to the FIA report on the Sugar crisis, the Punjab government had given an export subsidy of Rs. 2.6 billion to the sugar companies, out of which the companies owned by Mr Tareen got Rs 56 crore.

It is reported that Tareen’s companies account for 18-20 percent of the sugar production in Pakistan.

Of the six billion kilograms of sugar sold in the country, the share of his companies is 20 percent (ie 1.08 to 1.2 billion kilograms), so on account of this, his companies may have pocketed an additional Rs 29 to 32 billion more than the previous year.

And even if you reduce his sugar share/sale by half, he is estimated to still have got an extra 15 billion rupees.

This shows why his companies’ profits increased by more than a hundred percent recently as per official figures.

Covid-19: A Blessing in Disguise

Covid-19: A Blessing in Disguise

By Tahir Ali Khan

“I have a generator which I used to rent to locals but that is not possible anymore as Manga is closed. We are confined to home for last ten days for lockdown after the case of Saadat Khan came to surface. We are working in the fields and catering to the melons. We need plant-spray but it is hard to get as markets are closed. Life is difficult but we must avoid social interaction. I believe there is no difference between shooting people with a gun and shaking hands by a Coronavirus infected person with others,” says Safiullah Khan, a resident of Manga, a town lying some 6km from Mardan in Khyber Pakhtunkhwa Pakistan.

Manga is the home town of Saadat Khan who was the first Corona patient in Pakistan who had contracted Covid-19 in Saudi Arabia while performing Umra there. On return, Khan met, hugged and arranged a banquet for villagers despite clear symptoms and warnings by health officials to keep aloof from all with the result that he not only succumbed to Covid-19 himself a few days later but also infected scores of persons including his villagers, family members and a lady doctor who had met him.

Pakistan has over 4000 confirmed Corona-infections and 60 related deaths so far while there are respectively over 1.4 million and over 82 thousand Corona cases and deaths worldwide. Billions worldwide stand badly impacted by closure of businesses and supplies, home-confinement and joblessness. Millions are in danger of dying from the virus, hunger, slow and insufficient trace/test/treat response and infrastructure on part of the governments and acute carelessness and irresponsible behaviour on part of the people if the virus attack continues. As per the Washington Post, `US fatalities could be over 200,000 soon.

The Covid-19 impact on Global economy and Pakistan economy is estimated at $2.7 trillion and upto $4.95 billion respectively and there are gloomy forecasts for harsh economic conditions ahead, the world, however, is trying hard to contain and tackle the deadly pandemic and its aftershocks.

The World Bank Group has announced $14 billion package. ADB has announced $6.5 Billion initial response aid and the IMF to deploy $1trilion loan capacity to help sustain economies and protect jobs. Pakistan PM too has announced Rs1.25 trillion Covid-19 relief package. China has sent two planes-load of medical aid to Pakistan.

With self regulation, social distancing and care by the people and joint efforts of the public and private organizations across the globe to contain the virus and ensure proper treatment, the threats of COVID-19 may disappear sooner rather than later. But there is a silver lining behind the COVID-19 cloud. The lessons learnt during the calamity are likely to make life easier, happier, simpler and more pleasant than pre-Corona age in the world.

Covid-19 is a defining time. It will long be remembered for the lessons it taught, the opportunities it provided and the changes it brought in life patterns worldwide.

And the people at large have become kinder and friendlier. Enormous Cash-help and food-packages are being widely distributed to the poor in every nook and corner of the country. While the federal and provincial governments are making plans to deliver aid soon, aid organizations and philanthropists in Pakistan are already offering relief to the poverty/Covid-19 stricken people.

Home Confinement, almost nil social distancing for fear of contracting virus, closure of educational institutions, decreased office timings and reduced attendance in offices have afforded great opportunities for talking to near and dear ones at home, studying books, taking exercises, writing diaries/books and reports, watching movies, chatting with friends on social media and discussing things with family members. It has taught us that in the end it is your own family and home that keeps you safe and happy when you are in trouble and need support.

There is less noise-pollution and air pollution. With less traffic on road and industries coming to a halt during the crisis, according to a report in Nature, the ozone layer is continuing to heal and has the potential to fully recover.

The calamity has helped ease political polarization between PM Imran Khan and his political opponents on one hand and the federal government and the Sindh government on the other. Chairman of the Pakistan People’s Party Bilawal Bhutto Zardari, son of Late Benazir Bhutto, recently offered support to PM Khan as well as Shahbaz Sharif, the leader of the opposition in Pakistan’s National Assembly and brother of former PM Nawaz Sharif. Hard critic of Khan Maulana Fazlur Rehman of JUI (F) too has avoided criticism ever-since the crisis began. PM Khan, though, has shown no urgency to respond in same coin.

Covid- 19 has once again shown that our health system has remained underfunded, under equipped, under-staffed and under-developed. And if the matchless hardwork and sacrifices of our insufficiently equipped/endangered doctors and the Pakistan Army and private charity and welfare organizations were not there, we certainly would have seen more dreadful scenario by now.

It has brought home the point that there are highly insufficient hospitals with very few ventilators, testing facilities and per capita bed availability.

According to a World Bank report, there were only 0.6 hospital beds for 1,000 people in 2014 in Pakistan against 3 in Trinidad and Tobago and 2.7 in Saudi Arabia while Gallup Pakistan says in 2015, the population per bed ratio in Pakistan was 1613 which is larger than US’s 350, Japan’s 85 and India’s 1050. And there were 14073 health facilities for 191.7 Million persons i.e. a health facility for 13622 persons.

As per the data of Pakistan’s National Institute of Health NIH Pakistan, by March 31, Pakistan had performed 14658 corona tests of which 1865 are positive which are 13 percent of the total. China, against this, tested over 1.5 million people per week.

The disaster thus has made bare the lack of health infrastructure, lack of modern equipments, insufficient trained personnel and financial resources to cater to the needy in our emergency response programme to deal with the crisis. It necessitates better planning and more money for comprehensive development of the country’s fragile health infrastructure to be able to cope with suchlike disasters in future.

We must therefore allocate more funds for health system for research, development and training and ensuring sufficient medical equipments. The federal government should divert at least 30 per cent of the development and 50 per cent of non-development expenditures to trace, test, treat and support the Corona affected people and build sufficient health infrastructure.

Tracing, testing and treatment of the Covid-19 infected persons and financial support to the poor during/after lockdown is a massive challenge. This can hardly be done by the government alone. National and international donors and relief organisations should also help it cope with the calamity. The importance of close collaboration and coordination among governments, departments and masses, thus, can’t be overemphasized as it keeps from wastage of resources, allocation imbalances and less effective response.

As against some nations hit the most by the virus, Pakistan’s population remains have so far remained mostly safe and this despite widespread public disinclination to take care and avoid mingling with one another. One of the major reasons behind this is the youth ratio in Pakistan’s population which as per unicef Pakistan, has 68 percent population under the age of 30. We all know youngsters in this age have strong immunity against contagious diseases.

Health officials here were not popular earlier. But with their hardwork, selfless service, empathy and untiring efforts in the battle against the Covid-19 despite lack of medical equipments, Pakistani doctors are widely loved these days.

There are religious, medical, psychological, administrative, legal and moral aspects of the Corona-virus issue, therefore consolidated efforts are needed from all the sides and experts. Special care must be made to help and save persons with disabilities.

Tahir Ali Khan is a Mardan-based academic and writer. He blogs at www.tahirkatlang.wordpress.com and can be reached at tahirkatlang039@gmail.com

An Appeal to Chinese

An Appeal to Chinese

By Tahir Ali Khan
It was agonizing. There were fewer people than before. All of them were scary and in a hurry. They had to be for they feared they might fall victim to the deadly Corona virus.

The sight and the concern for the future were distressing. I was about to weep and began sobbing. Then I tried to control myself thinking of the people around me. But I just couldn’t hold my tears from rolling down my cheeks.

I was in the mosque for Friday prayers. The prayer leader quickly wrapped up the sermon and the subsequent prayer. Earlier, he had asked the people to do ablutions at home, offer the traditional Sunnah prayers at home and just reach to the mosque for obligatory prayer. He then prayed to Allah, besides other things, to eradicate this menace of Corona Virus quickly and completely.

The people the4n left quickly to offer the remaining Sunnah and optional prayer at home.

I wept because the mosques are on the verge of being closed and we may not be able to attend congregational prayers at these Homes of Allah the Almighty; even the Sacred Mosque at Makkah and the Mosque of the Prophet Muhammad PBUH have been shut down for prayers; so do churches, Mandirs, shrines and religious places of other beliefs; Markets, parks and roads are almost empty; Schools and colleges are closed; There is no or less social interaction; We are mostly confined to homes.

But there is more to it.

The entire world has been hit hard by the virus. Thousands have died and hundreds of thousands are in danger. Billions have been confined to homes. World economy is in a shambles. Hundreds of millions are finding it hard to cater to their families in wake of lockdowns and the resultant joblessness and pricehike. Billions may die of hunger in coming months if the virus attack continues.

The world is fighting and trying hard to contain the deadly pandemic. All have to. There is just no other option. We all do. Sooner or later, we will win (If Allaah wills) but the entire world needs to ponder and decide: will it be the last time that the virus played havoc with us? or will it strike back? Will we be on the defensive and trying to cure the patients after being hit by the pandemic or need to be aggressive in our approach to stop the menace from occurring again?

It is here that I want to say something to our brothers in China and other nations who, for their culinary habits, have been playing havoc with the world by becoming the origin of the virus.

You have all rights to eat whatever you like. So, none can force you to eat or not to eat this or that thing. We can only make a humble request. And let me make one. Hope you will accept it in the best interest of your nation and the entire world.

Just AVOID EATING RATS, MICE, BATs, DOGs, PIGS and other animals who are believed to have been the main sources of this and other deadly viruses in the past.
Kindly reconsider your culinary habits, stop eating the dangerous virus-containing and bad-smelling animals and shift to vegetables.

And if you like eating flesh, just move on to other non-dangerous animals like goats, rams and buffalos etc.

We all need to have Empathy. Just think of the deadly effects the eating of such deadly animals has caused to the world. Could we hope you all will put yourselves in our shoes and have mercy on us all living in the world that we share with you? Could you please promise that you will never eat these animals again?

ربُّ العالمین کے در پر ۔۔۔۔ (1)

ربُّ العالمین کے در پر ۔۔۔۔ (1)

طاہر علی خان

حرمین شریفین کی زیارت ہر مسلم مرد وعورت کی آرزو ہوتی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا، ہمارے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئ جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی رہی۔

جس کسی کے بارے بھی ہمیں معلوم ہوجاتا کہ وہاں جارہا/رہی ہے، اسے بلاوے کےلیے نوافل، خصوصی دعاؤں اور حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر درود وسلام پہنچانے کی التجا کرنے ضرور جاتا۔ وہاں سے واپس آنے والوں کے استقبال کےلیے بھی ائرپورٹ یا خوش آمدید کہنے گھر جاتا۔

تاجدارِحرم والی مشہور قوالی جب بھی سنتا تو اکثر آنکھیں بھر آتیں اور دل سے بلاوے کی دعا نکلتی۔ چند ایک نعت ہائے مبارک کے سننے پر بھی یہی حال ہوتا رہا۔

ہم بھی بڑے عرصے سے متمنی تھے لیکن وسائل بھی کم تھے اور کوشش بھی کمزور اس لیے جلد جانے کی آرزو پوری ہونے کی امید نہ تھی۔کئ بار پیسے ہاتھ میں آئے مگر کبھی ایک تو کبھی دوسری مصروفیت، مسئلے اور ڈیوٹی کے تقاضے جانے میں مانع رہے۔

یہ اقرار کرنے میں کوئ حرج نہیں کہ اگرکسی مقصد کے حصول کےلیے تڑپ اور خواہش کی شدت کا عملی پتہ اس کے لیے کی جانے والی کوششوں اور تیاریوں سے چلتا ہے تو یہی سچ ہے کہ کماحقہ تڑپ اور تیاری کا فقدان تھا۔ البتہ اتنا کیا تھا کہ اپنا، رفیقہ حیات اور دیگر اہل وعیال کا پاسپورٹ پہلے سے بنالیا تھا۔

مگر اللہ رحیم و کریم ہے اور اس کی رحمت سے مایوسی مسلم کو زیبا نہیں اس لیے یقین تھا کہ جلد یا بدیر بلاوا آجائے گا۔ لوگ بھی اکثر بتاتے ہیں اور وہاں کچھ ایسے غریب افراد سے گفتگو کرنے کے بعد جن کے آنے کا بندوبست اللہ نے کسی اور کے ذریعے کردیا، میرا بھی خیال ہے کہ وہاں جانا وسائل سے زیادہ دل کی تڑپ اور لگن پر منحصر ہے۔

بہت سے صاحب مال وہاں جانہیں پاتے جبکہ وہاں جانے کی شدید خواہش، کوشش اور دعا کرنے والے بلا لیے جاتے ہیں۔

اگر آپ بھی جانے کے خوہشمند ہیں تو خود بھی دعائیں کریں، نفل و تہجد پڑھیں، پیسے جمع کرنا شروع کریں، وہاں جانے والے یا واپس آئے لوگوں سے دعائیں لیں، درود شریف کثرت سے پڑھیں، صدقہ دیا کریں۔ امید ہے آپ جلدی بلالیے جائیں گے۔

اس دوران ایک معمولی سرجری بھی ہوئ اور ابھی پوری طرح بحالی بھی نہیں ہوئ تھی کہ جانے کا مکمل ارادہ کرلیا۔ سوچا بہت لیٹ ہوگئے ہیں اور گھر میں کسی کو بتائے بغیر اپنے اور رفیقہ حیات کےلیے عمرے کا داخلہ کردیا کہ وہ بیچاری تو عرصے سے اس مقصد کےلیے راتوں کو تہجد پڑھتی اور لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔

یہ فروری کی تین تاریخ اور پیر کا دن تھا۔ دس فروری بروز پیر دن گیارہ بجے اسلام آباد ائرپورٹ سے روانگی طے پائی۔

اب چھٹی لینے کا مرحلہ درپیش تھا۔ محکمے کو این او سی کےلیے  پہلے لکھا تھا لیکن کہاگیا جہاز کے ٹکٹ اور فلائیٹ شیڈول کے ساتھ رابطہ کریں۔

چنانچہ اگلے دن صبح سویرےاین او سی اور چھٹی کےلیے کاغذات بھیجے۔ بدھ پانچ فروری کو یوم کشمیر کی چھٹی تھی۔ درمیان میں صرف جمعرات اور جمعہ کےدن تھے کہ پھر ہفتہ اور اتوار چھٹی تھی جبکہ پرواز پیر کو تھی۔ وقت کم تھا مگر محکمہ کے ملازمین اور افسران، اللہ انہیں اجر عظیم دے، نے کمال سرعت سے جمعے کو بعد از دوپہر این او سی اور چھٹی کا حکم نامہ جاری کردیا۔

یہاں معمول ہے کہ جو بھی حج یا عمرے پہ جاتا ہے یا وہاں سے واپس آتا ہے تو سب دوست و رشتہ دار اور محلے دار ان کو الوداع یا خوش آمدید کہنے آتے ہیں۔ میں نے سکول اور محکمے کے ساتھیوں، قریبی رشتہ داروں اور دو تین دوستوں کے سوا کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ فیس بک وغیر پر بھی پوسٹ نہیں کیا۔ وجہ بس ریاکاری سے پرہیز، اخفاء کا ارادہ اور لوگوں کو تکلیف اور خرچے سے بچانے کی خواہش تھی۔ شاید روانگی میں تاخیر کا خدشہ بھی دامن گیر تھا۔

اپنا تو یہ حال تھا کہ جو بغیر بتائے حرمین شریفین چلا جاتا تو بہت دکھ ملتا کہ اس نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی یاددہانی کے شرف سے محروم رکھا۔ اب میں نے بوجوہ روانگی خفیہ رکھی تو مصمم ارادہ کیا کہ سب دوستوں، رشتہ دادوں، ہم پیشہ ساتھیوں، گاؤں والوں اور مردہ و زندہ سب کےلیے دعا کروں گا چاہے کسی نے کہا ہے یا نہیں کہاہے۔

ایک اور پکا ارادہ حرمین شریفین سے پوسٹیں اور تصاویر بھی شیئر نہ کرنے کا تھا تاکہ وہاں اذکار، طواف اور عبادات پر کماحقہ توجہ دی جاسکے۔

روانگی سے پہلے احرام اور جوتے خریدے مگر ریال بوجوہ خریدنے کا موقع نہ ملا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ یہاں پاکستان میں ریال چالیس روپے میں مل رہا تھا جبکہ مجھے وہاں سعودیہ میں  فی ریال ساڑھے تریالیس روپے ادا کرنے پڑے۔

روانگی سے پہلے رات گھر خاصی گہماگہمی تھی۔ قریبی رشتہ دار جمع ہوئے تھے۔ ہر ایک کی التجا تھی انہیں خصوصی دعا میں یاد رکھا جائے۔ چند دوستوں نے بھی اپنی مالی پریشانیوں، روحانی و جسمانی بیماریوں سے چھٹکارے اور حرمین شریفین کی زیارت کےلیے نوافل کی استدعا کی۔ ان سے وعدہ کیا۔

(جاری ہے)

قومی غیرت اور اقتدار اعلٰی

قومی غیرت اور اقتدار اعلٰی

طاہر علی خان

یکم اپریل 2001 کو امریکہ کا ایک جاسوس طیارہ بین الاقوامی سمندری حدود پر پرواز کرتے ہوئے چین کے حینان آئی لینڈ کی حدود میں داخل ہوا تو چین نے اسے اپنے لڑاکا طیاروں کے ذریعے گھیرے میں لے کر اترنے پر مجبور کردیا۔ اس جاسوس جہاز کی ٹکر سے چین کا ایک لڑاکا طیارہ سمندر میں گر کر تباہ اور اس کا پائلٹ مرگیا۔ جہاز اور اس پر موجود عملے کی واپسی پر چین اور امریکہ کے درمیان چپقلش پیدا ہوئ جو کئ مہینے جاری رہی۔

امریکہ کہتا تھا ہمارا جہاز بین القوامی ہوابازی حدود میں محو پرواز تھا جس میں ہر ملک کو جہاز اڑانے کی اجازت ہوتی ہے۔ چین کہتا تھا یہ ہمارے حدود میں اڑ رہا تھا، اس نے ہم سے اجازت نہیں لی تھی اور اس کی ٹکر سے ہمارا جہاز تباہ اور پائلٹ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اب امریکہ اس دخل اندازی پر چین سے معافی مانگے اور جہاز کی تباہی اور پائلٹ کے خون بہا کے طور پر ایک ملین ڈالر ادا کرے۔ امریکہ نے بالآخر دس دن بعد معافی مانگ لی تو اسے اپنے 24 اہلکار مل گئے۔ جہاز کو واپس لے جانے کےلیے گئے ہوئے اس کے پائلٹس کو مگر خالی ہاتھ آنا پڑا۔

چین نے کہا اب یہ جہاز ہماری سرزمین سے نہ خود اڑاکر اور نہ ہی اسے سالم حالت میں کسی دوسرے امریکی جہاز میں لے جایا سکتا ہے بلکہ اب اسے پرزے کرکے لے جانا پڑے گا۔ یوں اس جہاز کے پرزے صندوق میں بند کرکے ایک روسی جہاز میں لے جاکر امریکہ کے حوالے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ایک اور کام بھی کیا گیا۔ امریکی اہلکاروں اور جہاز کو لے جانے، رکھنے، اہلکاروں کے کھانے پینے اور جہاز کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے واپس بھیجنے کے سارے اخراجات کی مد میں امریکہ سے 34567.89 ڈالرز بھی وصول کیے گئے۔

کیا آپ سوچ رہے ہیں چین ایک طاقت ور ملک ہے وہ اپنے قومی غیرت کے حوالے سے حساس ہو سکتا ہے اور اپنی مرضی بھی منوا سکتا ہے جبکہ غریب اور کمزور ملک آزادی سے اپنے فیصلے خود کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے؟ چلیے آپ کو اپنے ملک کی تاریخ سے ہی چند مثالیں دیتے ہیں جب ہمارے سابقہ حکمران طاقت ور ممالک کے سامنے ڈٹے رہے اور انہوں نے آزادی کے ساتھ اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے۔

یہ 1962 کی بات ہے۔ جنرل ایوب خان ملک کے سربراہ ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان رابطے اور گرم جوشی بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کو پتہ چلتا ہے تو وہ پاکستان کو اس وقت امریکہ کے دشمن چین سے دور رہنے کا کہتا ہے مگر پاکستان ماننے سے انکار کر دیتا ہے کہ چین سے تعلق اور دوستی اس کے ملکی مفاد کا تقاضاہے اور یہ تعلق کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔ یہی امریکہ بعد میں پاکستاں کی منت کرتا ہے کہ وہ چین سے اس کی مذاکرات اور تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ بنے۔

1969 یاد آرہا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہو رہا ہے۔ ہندوستان کو بھی تب ساٹھ ملین مسلم آبادی کی وجہ سے بطور رکن شرکت کرنے کی دعوت دی جا چکی ہے اور اس کا وفد شرکت کرنے پہنچ چکا ہے۔ یہ سن کر صدر پاکستان جنرل یحیٰی اجلاس میں آنے سے تب تک انکار کردیتے ہیں جب تک ہندوستان کو بطور ممبر اجلاس میں شرکت کی دعوت واپس نہیں لی جاتی۔ اجلاس کا وقت صبح دس بجے مقرر ہے مگر وہ اپنے جائے قیام سے باہر آنے سے منکر ہیں۔ انہیں منانے عرب ملکوں اور ایران کے رہنماء جاتے ہیں مگر ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہندوستانی وفد کو کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کےلیے اپیل کی جاتی ہے کہ آپ مکمل رکن کے بجائے آبزرور کی حیثیت سے شریک ہوں یا اجلاس میں آنے سے اجتناب کریں مگر وہ بھی نہیں مانتے۔ ادھر صدر پاکستان بھی نہیں آرہے۔ کانفرنس ہال میں دوسرے ملکوں کے وفودبیٹھے ہیں پاکستانی صدر کا انتظار کررہے ہیں۔ اجلاس ملتوی ہوتا ہے بالآخر اگلے روز جب صدر پاکستان کی بات مان لی جاتی ہے اور ہندوستانی وفد کو اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ واپس لے لیا جاتا ہے اور اسے اجلاس میں شرکت نہیں کرنے دی جاتی تو صدر پاکستان اجلاس میں پہنچ جاتے ہیں۔

آئیے اب 1974 کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد دوبارہ اس قسم کی صورت حال سے بچنے اور عالم اسلام کے اتحاد کو یقینی کےلیے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس بلاتا ہے تو امریکہ وزیراعظم بھٹو کو ایسا نہ کرنے کا کہتا ہے اور نہ ماننے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کی دھمکی دیتا ہے مگر پاکستان اس کی بات ماننے سے انکار کرلیتا ہے کہ اپنے خارجہ پالیسی کے فیصلے وہ اپنے مفاد کے تحت کرے گا نہ کہ ان کے کہنے پر۔

اور وہ وقت بھی یاد کریں جب پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو امریکہ اور دوسرے ملکوں نے اسے “اسلامی بم” بنانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، پابندیاں لگائیں، ہمارے حکمرانوں کو دھمکیاں دیں مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے نواز شریف تک سب ڈٹے رہے اور ایٹم بنانے پر کام جاری رہا۔ بعد میں بے نظیر بھٹو مرحومہ کے دور میں بیلسٹک میزائل اور ان کے بنانے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کی گئی اس لیے کہ ایسا کرنا ملک کی سلامتی کےلیے ضروری تھا اور یہی ملک کے مفاد میں تھا۔

1998 کی یاد آرہی ہے جب ہندوستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ اس وقت کی نواز شریف حکومت نے اس پر مذہب، سیاست، سماج اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی سے منسلک لوگوں سے مشورے شروع کر دیئے کہ کیا کیا جائے۔ اس دوران خفیہ طور پر جوابی ایٹمی دھماکوں کی تیاری بھی جاری رہی۔ دنیا کی طاقت ور انٹلی جنس ایجنسیوں کو شک تھا کہ پاکستان تیاری کررہا ہے لیکن جگہ کا پتہ نہ تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک کے رہنماؤں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوششیں شروع کردیں، دھمکیوں سے کام نہ چلا تو امریکی صدر نے خود وزیراعظم نواز شریف صاحب کو فون کرکے دھماکے نہ کرنے کے عوض پانچ ارب ڈالرز اور مزید امداد کی پیشکش کی لیکن حکومت نے 28 مئ 1998 کو چھ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو مسلم ملکوں کی پہلی ایٹمی طاقت بنادیا۔

2003 میں پاکستان نے عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کی اور جنگ میں حصہ لینے کےلیے اپنی فوج نہ بھیجی۔۔ جنگ کے بعد امریکہ اور برطانیہ پاکستان پردباؤ ڈالتے رہے کہ وہ عراق میں قیام امن میں مدد دینے کےلیے اپنی فوج بھیجے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ عراق میں صورتحال خطرناک تھی اور وہاں فوج بھیجنا نقصان دہ ہوگا۔ یوں پاکستان نے ایک دفعہ پھر اپنے مفاد میں فیصلہ لیا۔

نومبر 2011 میں امریکی فوج نے پاکستان افغانستان سرحد پر سلالہ کےمقام پر ایک کارروائی میں 28 پاکستانی فوجی شہید کردئیے۔ پاکستان نے اس کے نتیجے میں نیٹو سپلائ لائن منقطع کردی۔ پاکستان کا مطالبہ تھا امریکہ اس پر معافی مانگے اور قصورواروں کو سزا دے۔ امریکہ چاہتا تھا اس کے بغیر سپلائ لائن بحال کی جائے۔ وہ پاکستان پر مہینوں دباؤ ڈالتا رہا مگر جب تک جولائی 2012 میں اس نے معافی نہیں مانگی پاکستان نے نیٹو سپلائی لائن بحال نہ کیا۔ اس سے پہلے جب امریکی سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ہمارا صبر تمام ہورہا ہے تو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے امریکی وفد سے ملاقات منسوخ کردی تھی۔

2011 ہی میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا۔ اس نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا اور پاکستان نے اسے گرفتار کرکے اس پر مقدمہ شروع کیا۔ یہ امریکہ کے بقول ایک سفارتی اہلکار تھا جسےگرفتارکیا جا سکتا تھا نہ اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا تھا۔ امریکہ نے پاکستان پر بے انتہا دباؤ ڈالا کہ ریمنڈ ڈیوس کو فوراً رہاکرے مگر پاکستان ڈٹا رہا۔ پاکستان نے ان کے سفارت کاروں کی تعداد اور سرگرمیاں انتہائ محدود کردیں ۔ باالآخر امریکی حکومت نے ان بندوں کے خاندان والوں کو خون بہا دے کر ریمنڈ ڈیوس کو معافی دلوائ اور یوں عدالت میں راضی نامہ پیش کرکے اس کی جان بخشی کروائ۔

آئیے اب 2015 کی طرف آتے ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور اس کے دیگر عرب اتحادی یمن میں اس کے بقول ایران نواز ہوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کےلیے ایک فوجی اتحاد تیار بنایا جارہاہے جس میں پاکستان کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت ان دو ملکوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی لیکن اس جنگ میں شریک بھی نہیں ہونا چاہتی۔ بالآخر حکومت وہاں فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے کہ پاکستان مزید دوسروں کی ایک غیر ضروری جنگ میں آخر کیوں کودے۔ اس سے یقیناً سعودی عرب اور یو اے ای ناراض ہوئے اور نواز شریف کو اس کا اقامہ کے معاملے پر نقصان بھی ہوا مگر جنگ میں نہ کودنے کا فیصلہ انہوں نے پاکستان کے مفاد میں لے لیا تھا۔

اب ہم 2019 کی بات کرتے ہیں۔ کشمیر میں ہندوستان ظلم و ستم کا بازار گرم کر چکا ہے۔ پاکستان او آئ سی کا اجلاس بلانا چاہتا تھا۔ لیکن سعودی عرب اور یو اے ای نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ الٹا مودی کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ پھر او آئی سی کا اجلاس ہوا جس میں ہندوستان کو بلایا گیا۔ پاکستان نے اس پر احتجاج کیا لیکن “بردران اسلام” نے اس کی بات کو توجہ ہی نہیں دی۔ چنانچہ اس نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا لیکن اسے منانے کسی نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

2019 ہی کے ستمبر میں ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کے سربراہان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مسلم امہ کے مسائل کو کماحقہ کوریج دینے، اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے اور صحیح اسلامی بیانیہ کی ترویج کےلیے یہ تین ممالک ایک مشترکہ چینل بنائیں گے اور ایک مشترکہ کرنسی بھی لانچ کریں گے۔

ترکی، ملائشیا اور ایران نے کشمیر کے مسئلے پر کھل کر ہمارا ساتھ دیا حتیٰ کہ ملائشیا سے ہندوستان نے اربوں ڈالز کا خوردنی تیل درآمد کرنے کا آرڈر کینسل کردیا۔ اب ہمارے وزیراعظم کی منظوری سے اسی ملائشیا میں مسلم ممالک کا اجلاس بلایاگیا جس میں شرکت کا ہمارے وزیراعظم نے وعدہ کیا۔ اچانک وزیراعظم صاحب سعودی عرب چلے گئے اور وہاں شہزادہ سلمان سے ملے تو وہاں سے ہی خبر آگئ کہ وزیر اعظم صاحب ملائشیا نہیں جائیں گے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے اس پر کہا کہ ملائشیا اجلاس پر عرب ممالک کو تحفظات تھے جبکہ پاکستان امت میں انتشار نہیں چاہتا۔ ترک صدر نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو چالیس لاکھ پاکستانی کارکن سعودیہ عرب سے نکالنے اور سٹیٹ بنک میں رکھی اپنی رکھی گئ رقم واپس لینے کی دھمکی دے کر ملائشیا اجلاس میں جانے سے روکا ہے۔ تاہم پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نے اس تاثر اور بیان کی تردید کی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اجلاس سے روکا ہے۔

اگر واقعی پاکستان کو دھمکی دے کر ملائشیا کے اجلاس میں جانے سے روکا گیا ہے تو سوال یہ ہے ہم نے ان کے کہنے پر کیوں فیصلہ تبدیل کیا اور وہ بھی ان کے خلاف جو کشمیر اور FATF وغیرہ کے معاملے پر اِن کے برعکس ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اب کون ہماری بات پر اعتبار کرے گا یا کشمیر کے مسئلے پر ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کےلیے تیار ہوگا؟

اگر کوئ کہے کہ سعودی عرب نے تو نہی روکا لیکن وہاں نہ جانے میں ہی پاکستان کا فائدہ تھا تو پھر وہاں جانے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے فیصلہ کرنے والے دور اندیشی سے عاری ہیں۔ انہوں نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ نئے اتحاد اور پھر اجلاس میں شمولیت کا وعدہ اور فیصلہ اس کے تضمنات پر سوچے بغیر کیا۔ اگر یہ بات ہے تو یہ تو ملک کےمستقبل کےلیے اور بھی خطرناک بات ہے۔

قومی اقتدار اعلیٰ کا تقاضا ہے کہ کوئ بھی ملک اپنے اندرونی اور بیرونی فیصلے اپنی آزاد مرضی سے، بغیر کسی کے دباؤ اور مجبوری کے، اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے۔

ہارس ٹریڈنگ“ سے پاک سینیٹ انتخاب کیسے؟”

ہارس ٹریڈنگ“ سے پاک سینیٹ انتخاب کیسے؟”

سینیٹ کے انتخاب میں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ارکان کی ”ہارس ٹریڈنگ“ کا مسئلہ کافی سنگین صورت اختیار کرچکا اور جمہوریت کی نیک نامی، مضبوطی اور بقا کے لیے اس کا روکنا اور شفاف انتخاب کا اہتمام لازمی ہو گیا ہے۔

مگر آئیے ارکانِ سینیٹ اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں دھن و دھاندلی کے سدِباب پر بات کرنے سے پہلے سینیٹرز کے موجودہ نظامِ انتخاب پر نظر ڈالیں۔

سینیٹ کا موجودہ نظامِ انتخاب

1973 کے پاکستانی آئین کی دفعات 59، 218 اور 226 میں سینیٹ کی بناوٹ، اس کے ارکان کے میعادِ عہدہ اور انتخاب کے طریقۂ کار پر بحث کی گئی ہے۔

 

سینیٹ پارلیمان کا ایوان بالا ہے جس میں وفاقی اکائیوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے تاکہ قومی اسمبلی، جس میں آبادی کے حساب سے صوبوں کو نشستیں دی گئی ہیں، میں کوئی بڑا صوبہ اپنی زیادہ نشستوں کی بنیاد پر چھوٹے صوبوں سے کوئی زیادتی نہ کر سکے۔ یہ ایک مستقل قانون ساز ادارہ ہے جس کے آدھے ارکان کا ہر تین سال بعد انتخاب ہوتا ہے۔

فی الحال سینیٹ کے کُل 104 ارکان ہیں جن میں ہر صوبے سے کُل 23، قبائلی علاقوں سے 8 اور اسلام آباد سے 4 ارکان چھ سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ جبکہ قبائلی علاقوں کے منتخب ارکانِ قومی اسمبلی اس خطے کے ارکان اور قومی اسمبلی کے تمام ارکان اسلام آباد کے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔

آئین کی دفعہ 59 کے مطابق ہر صوبے کی مختص نشستوں کو پُر کرنے کے لیے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام
(Proportional Representation System)
کے تحت واحد قابلِ انتقال ووٹ (Single Transferable vote) کے ذریعے ہوتا ہے۔

 

آرٹیکل 226 کہتا ہے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے انتخاب کے سوا سب خفیہ رائے دہی سے ہوں گے۔ چنانچہ سینیٹرز اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمینِ سینیٹ کا انتخاب بھی خفیہ رائے دہی سے ہوتا ہے۔

خفیہ رائے دہی، فوائد و نقصانات

خفیہ رائے دہی کا نظام دو بنیادی توقعات پر قائم ہے۔ ایک کہ رائے دہندہ باشعور اور ایمان دار ہے موقع ملے تو وہ صحیح امیدوار کو منتخب کرے گا اور دوسرا یہ کہ اسے آزادی سے یہ فیصلہ کرنے اور کسی بھی انتقامی ردعمل سے بچانے کے لیے اُسے تنہائی میں یہ فیصلہ کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔

اگر اِس نظام پر صحیح عمل ہو تو نہ صرف ہر پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں اپنی نشستوں کے تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی ملے گی بلکہ اچھے لوگ بھی منتخب ہو سکیں گے لیکن بوجوہ ایسا اکثر ہو نہیں پاتا۔

 

یہ نظام بدعنوانی کا ذریعہ/مظہر بن گیا ہے۔ اس میں رائے دینے والے کی شناخت چھپی رہتی ہے۔ وہ ارکان یا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے سب کے سامنے اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے مگر اندر جاکر مخالف امیدوار کو ووٹ دے جاتا ہے اوراِس خفیہ فلور کراسنگ کے بدلے کروڑوں روپے وصول کر لیے جاتے ہیں۔

دولت یا عہدوں کے لالچ میں چوری چھپے کی جانے والی یہ بے ایمانی نہ صرف اپنی پارٹی کے نقصان بلکہ جمہوریت اور سیاستدانوں کی بدنامی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

”ہارس ٹریڈنگ“ سے پاک سینیٹ انتخاب کیسے؟

موجودہ نظام دھن اور دھاندلی روکنے میں ناکام ہو چکا۔ آئیے اس کے متبادل نظام اور اس میں درکار اصلاحات زیربحث لاتے ہیں۔

(Open Ballot system) کھلی رائے دہی

خفیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹرز کے انتخاب میں ”ہارس ٹریڈنگ“ کو دیکھتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ یہ انتخاب کھلی رائے دہی سے کیا جائے۔ اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔

 

مثلاً ارکان انتخاب کے وقت ہاتھ اٹھاکر، پارٹی یا اتحاد کی بنیاد پر ایک طرف کھڑے ہوکر، اپنے پسندیدہ امیدوار کا نام لے کر یا زیادہ نشستوں کی صورت میں پسندیدہ امیدواروں کی با الترتیب آپشنز کی فہرست سب کے سامنے دے کر اپنی رائے دے سکتے ہیں جبکہ پارٹیاں بھی متناسب نمائندگی کے مطابق فہرست دے دیں۔ مگر اس سے جڑا خدشہ یہ ہے کہ انتخاب کرنے والے اپنی آزاد مرضی سے رائے نہیں دے سکیں گے یا پھر کسی طاقت ور امیدوار کی مخالفت کرکے نقصان و انتقام کا سامنا کرسکتے ہیں۔

سینیٹرز کا براہ راست انتخاب

صوبائی اسمبلیوں یا قومی اسمبلی کے ذریعے ارکانِ سینیٹ کے انتخاب میں بڑھتی ہوئی خرید و فروخت کے پیشِ نظر کچھ عرصے سے ارکانِ سینیٹ کے براہ راست انتخاب کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

اس کے لیے یا تو پورا صوبہ ایک حلقہ ہو اور عوام ہر تین سال بعد پارٹیوں کو ووٹ دیں جن سے پہلے سے ان کے نامزد کردہ سینیٹروں کی لسٹ لی جاچکی ہوگی۔ یا صوبائی اسمبلی کے چار پانچ حلقوں کو ملا کر ایک سینیٹ حلقہ قائم کیا جائے جس میں عوام امیدواروں کو براہِ راست ووٹ دیں۔ دونوں طریقوں میں ایک تہائی یا آدھی نشستیں ماہرین، اقلیتوں اور خواتین کے لیے مختص ہوں گی جن کا انتخاب براہ راست نہیں بلکہ براہ راست ووٹنگ میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نامزدگی کے ذریعے ہوگا۔

 

لیکن ان دونوں طریقوں کے لیے ہر تین سال بعد انتخاب درکار ہوگا جو ظاہر ہے مشکل اور مہنگا کام ہے۔ پھر اس طرح سینیٹ صرف مالداروں کا کلب اور قومی اسمبلی کی نقل بن جائے گا۔
یہی وجہ ہے پورے سینیٹ کی کمیٹی نے بھی 2015 میں ایک رپورٹ میں سینیٹرز کے براہ راست انتخاب کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیا تھا۔

صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نامزدگی

آئین کی دفعہ 59 شق 2 کے تحت کسی صوبے کے سینیٹ میں نشستوں کو پُر کرنے کے لیے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اور واحد قابل انتقال ووٹ کے ذریعے ہونا ہے۔ اس دفعہ میں تناقص ہے۔

ایک طرف کہا گیا ہے سینیٹ کی نشستیں لازمی صوبائی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے تناسب سے ہوں جب کہ دوسری طرف اُن نشستوں پر خفیہ رائے دہی سے انتخاب کی بات کرکے یہ نشستیں دوسروں کے لیے بھی جیتنے کا امکان پیدا کیاگیا ہے جیسا کہ ڈیڑھ سال پہلے خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی نشستیں اوروں نے ہتھیالی تھیں۔ ظاہر ہے یہ آئین کی منشاء کے خلاف ہے۔ اگر ووٹ کسی کو بھی دیا جا سکتا ہو تو پھر متناسب نمائندگی کی بات کیوں کی گئی اور اگر پارٹی پوزیشن اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پہ ہی ارکانِ سینیٹ منتخب کرنے ہیں تو پھر نامزدگی کے بجائے انتخاب کی بات کیوں کی گئ؟ یہ تناقص دور کرنے کی ضرورت ہے۔

صحیح راستہ یہ ہے کہ اُس صوبائی اسمبلی میں عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پہ ہی وہاں کی نشستیں نامزدگی سے پُر کی جائیں اور واحد قابلِ انتقال ووٹ اور خفیہ رائے دہی کے ذریعے دوبارہ انتخاب سے متناسب نمائندگی کے امکان کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ یعنی پارٹیوں سے اُن کے حصے کی نشستوں کے لیے نامزد ارکان کی فہرستیں طلب کی جائیں گی اور ان کا بطورّ سینیٹ ارکان حکم نامہ جاری کردیا جائے گا۔ اس طرح خرچہ بھی نہیں ہوگا اور ہارس ٹریڈنگ کا موقع بھی جاتا رہے گا۔ بس اس کے لیے اس دفعہ کی شق 2 میں ترمیم کرکے ”واحد قابلِ انتقال ووٹ“ کی جگہ ”پارٹی سربراہ کی جانب سے نامزدگی“ کے الفاظ شامل کردینے ہوں گے۔

موجودہ نظام میں اصلاحات

اگر ارکانِ سینیٹ کا انتخاب براہ راست عوام یا کھلی رائے دہی یا پھر کسی صوبائی اسمبلی میں موجود پارٹی پوزیشن/متناسب نمائندگی کے مطابق نامزدگی سے نہیں کروانا ہے اور موجودہ خفیہ رائے دہی کا نظام ہی برقرار رکھا جانا ہے تو پھر شفاف انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ نظام میں چند اصلاحات درکار ہیں۔

1۔ آزاد امیدواروں پہ پابندی لگائی جائے کیوں کہ جس کا صوبائی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی رکن نہ ہو وہ ظاہر ہے ارکان خرید کر ہی پاس ہو سکتا ہے۔

2۔ ہر ووٹ پر صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے متعلقہ رکن کا نام لکھا ہو۔ آئین کی دفعہ 226 کے مطابق سینیٹ میں خفیہ رائے دہی ہوگی اس لیے اس میں ترمیم کرنا ہوگی تاکہ پارٹی سربراہ یا پارلیمانی قائد چاہے تو درخواست دینے پر کسی رکن کے ووٹ اسے دکھائے جاسکیں۔ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کم/ختم ہو جائے گی۔

3۔ جو ووٹ خراب ہو اور مسترد ہونے والا ہو اس رکن سے پریزائیڈنگ افسر پوچھ کر اس کی رائے دوبارہ معلوم کرلے اس طرح ووٹ خراب کرکے نتیجہ کسی اور کے حق میں کرنا ناممکن ہو جائے گا جیسا پچھلے دنوں چیئرمینِ سینیٹ کے انتخاب میں پانچ مسترد ووٹوں سے ہو چکا۔

4۔ امیدواروں کی نامزدگی اور انتخاب میں پیسوں کا کردار ختم کرنے کے لیے پارٹیاں اُن اصلی کارکنوں کو ٹکٹ دیں جنہوں نے کم ازکم دس سال پارٹی میں گزارے ہوں۔ یوں پیسے والا ایک پارٹی کی سینیٹ نشست سے استعفیٰ دے کر دوسری پارٹی میں شامل ہوگا تو چند روز بعد ہی وہاں سینیٹر نہیں بن سکے گا۔

5۔ دفعہ 63 الف میں ترمیم کرکے سینیٹ انتخاب میں اپنی پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے یا نہ دینے یا بغیر اجازت غیرحاضر ہونے کو بھی کسی رکن کی نا اہلی کے اسباب میں شامل کیا جائے۔
6۔ جو بھی کسی صوبے یا قبائلی علاقے یا دارالخلافے سے انتخاب لڑنا چاہے اس کے لیے لازم ہو کہ وہ وہاں کم ازکم پانچ سال سے مستقل رہائش رکھتا ہو۔

الوداع ونگ کمانڈر ابھے نیندن! 

یہ سطریں شائع ہونے تک بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھے نیندن پاکستان سے اپنے وطن اور گھر پہنچ چکے ہوں گے۔ ہندوستان کے باشندے اور ان کے گھر والے ان کی واپسی پہ یقیناً خوش ہوں گے لیکن ہم پاکستانی ان کے جانے پرخوشی، دکھ اور فخر کے ملے جلے جذبات و احساسات سے سرشار ہیں۔ خوشی ان کی رہائی پر ہے، دکھ ان کی جدائی پر اور فخر ان کی بہترین رکھوالی پر۔

ابھے نیندن جی نہ صرف ایک بہادر فوجی نظر آئے بلکہ تعصبات سے بالاتر اور جلد گھل مل جانے والے ایک محب وطن، زیرک اور بے باک انسان کے طور پر بھی سامنے آئے۔

پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر آئے تو انہوں نے ایک حقیقی فوجی کے طور پر اپنے حواس بحال رکھے، مقام کا پتہ لگانے کی کوشش کی، پھر پیچھا کرنے والوں کو پستول کی ہوائی فائرنگ سے ڈرانے اور اس میں ناکامی پر بھاگنے کی کوشش کی۔ جب اس میں بھی ناکام ہوئے تو اپنے ساتھ موجود اہم سرکاری مواد کو نگلنے اور پھر دریابرد کرنے کی تگ و دو کی۔ پھر ہتھیارپھینکنے سے پہلے لوگوں سے اپنی زندگی کا وعدہ لیا۔ ایک دو بندوں نے جب تھپڑ مارے تو بھی وہ نہ چیخے چلائے نہ فریاد کی بلکہ وقار کے ساتھ کھڑے رہے۔ پھر جب پاکستانی فوج کے دو سپاہی پہنچے تو انہیں اپنا سرکاری نمبر بتایا اور جب سپاہی نے اپنے افسر کو نمبر بتانے میں غلطی کی تو انہوں نے، باوجود یہ کہ انہیں زمین پر گرا کر ان کی گردن دبوچی گئی تھی، بلند آواز سے جرأت کے ساتھ غلطی کی دو دفعہ تصحیح کی تھی۔

اگرچہ انہوں نے پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور اپنی بہترین رکھوالی پر ان کا شکریہ ادا کیا، چائے کا لطف اٹھایا، ہمارے فوجی افسر کے ساتھ بے تکلفی سے بات چیت کی لیکن کوئی پیشہ ورانہ معلومات دینے سے صاف انکار کیا۔

ابھے نیندن ایک محب وطن ہندوستانی کے طور پر پاکستان ”شکار“ کی تلاش میں آئے تھے لیکن ان کا جہاز خود شکار ہوگیا۔ وہ خود بچ گئے اور زیادہ خوشی کی بات یہ کہ کہ ان کی زندگی اور امن کے نام پر رہائی کے ساتھ جنگ کے امکانات بھی کم یا ختم ہوگئے۔

واہگہ سرحد پر جس خندہ پیشانی اور فوجی وقار کے ساتھ وہ کھڑے تھے اس سے بالکل پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ ہندوستان کی نظر میں ایک دشمن ملک کی سرزمین پر اور ایک ”دشمن“ فوج کے درمیان کھڑا کوئی جنگجو تھا بلکہ جیسے کوئی اپنے پیاروں کے درمیان کھڑا ہوا ہے۔

ابھے نیندن جی آئے، دکھائی دیے اور اپنے رکھ رکھاٶ سے پاکستانیوں کو اپنا گرویدہ بنا کر چلے گئے۔

ابھے نیندن جی نے تو پاکستانی فوج کی محبت اور پیشہ ورانہ انسان دوست انداز و اطوار دیکھ لیے۔ امید ہے باقی ہندوستانی بھی جلد ماضی کی باہمی نفرت اور غلطیوں کو بھلا کر پاکستان کو اپنا ایک ہمدرد اور پیارا پڑوسی سمجھنا اوراس کے ساتھ امن سے رہنا شروع کر دیں گے۔

ابھے نیندن جی بڑے خوش قسمت نکلے کہ نہ ان کے پردھان منتری نریندر مودی نے ان کی رہائی کے لیے کوئی اپیل کی اور نہ اس ضمن میں ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کی گئی کالز کا جواب دیا لیکن پھر بھی صرف امن اور صلح کے نام پر وزیر اعظم عمران خان نے ان کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔ اب یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی اگر ہندوستانی حکومت اور میڈیا اس کو مجبوری میں لیا گیا اقدام قرار دے۔ اس سے صرف امن کی آشا کو ہی نقصان پہنچے گا۔

ابھے نیندن جی نے کہا تھا میں واپس جاکر پاکستانی فوج کی تعریف والا اپنا بیان واپس نہیں لوں گا۔ ایسا ہوگیا تو وہ قول و قرار کے پکے بھی ثابت ہو جائیں گے۔ دعا ہے کہ ان کی رہائی مستقبل میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان امن اور دوستی پروان چڑھانے میں معاون ہو۔

پاکستانی فوج کے جن جوانوں کے ساتھ وہ رہے وہ اور پاکستانی عوام ان کو مس کریں گے۔ امید ہے وہ بھی وہاں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے علمبرداروں کی نحیف آواز کو مضبوط بنائیں گے.